پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ ہفتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے جن میں نہ صرف سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ مسیحی اور ہزارہ شیعہ برداری سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ہدف بنایا گیا۔
انسانی حقوق کی ایک غیر جانب دار تنظیم ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ (ایچ آر سی پی) نے رواں ماہ کوئٹہ میں جان لیوا حملوں میں اضافے کی شدید مذمت کی ہے۔
رواں ہفتے ہی کوئٹہ کے دو مختلف علاقوں میں کچھ منٹوں کے وقفے سے دو خودکش حملوں میں فرنٹیئر کور اور پولیس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں متعدد اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
’ایچ آر سی پی‘ کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ کوئٹہ میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر باعثِ تشویش ہے جس نے اپریل کے آغاز سے ہی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کوئٹہ میں مسیحی اورشیعہ ہزارہ برادریاں بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہی ہیں۔
واضح رہے کہ یکم اپریل کو نامعلوم مسلح افراد نے ایک کار میں سوار ہزارہ برادری کے لوگوں پر فائرنگ کی تھی جس میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔
کوئٹہ ہی میں 15 اپریل کو ایک گرجا گھرکے قریب رکشے میں سوار چار مسیحیوں کو گولیاں مارکر قتل کردیا گیا تھا جب کہ اسی مہینے دو مختلف واقعات میں ہزارہ شعیہ برادری کے تین افراد کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
ایچ آر سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں زیادہ تر مذہبی اقلیتوں کے افراد کو منظم طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ان کے بقول، "ایچ آر سی پی کو ریاست کی جانب سے موثر اور ٹھوس کارروائی نہ کیے جانے پر بھی تشویش ہے۔"
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں صرف ہزارہ برادری کے 509 افراد ہلاک اور 627 زخمی ہوئے۔
ایچ آر سی پی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "قانون نافذ کرنے والے ادارے جو شہریوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، وہ بھی ان حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ حقیقت صوبے میں جاری امن و امان کے مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔"
کمیشن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لائے اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے جو اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دیتے ہیں۔