پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک موقر تنظیم نے حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے مزید دلچسپی لے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سالانہ اجلاس کے بعد اتوار کی شام جاری ہونے والے ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد سمیت متعدد معاملات پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تنظیم نے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام پر بھی ایک بار پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مدت میں توسیع سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سول عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری کے لیے مستقبل میں بھی بہت کم کوشش کی جائے گی۔
"فوجی عدالتوں کی کارروائیوں سے متعلق قواعد وضوابط سے متعلق وسیع پیمانے پر پائی جانے والی شکایات کے باوجود ان عدالتوں کی تجدید اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ مستقبل میں بھی (سول) عدالتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت ہی کم کوشش کی جائے گی۔"
رواں سال جنوری میں اپنی دو سالہ مدت پوری کرنے کے بعد فوجی عدالتیں غیر فعال ہو گئی تھیں جنہیں ایک بار پھر آئین میں ترمیم کر کے گزشتہ ہفتے ہی مزید دو سال کے لیے فعال بنایا گیا تھا۔
ان عدالتوں میں دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے مقدمات سنے جائیں گے اور حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کو نہ صرف اپنی صفائی کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا بلکہ ان عدالتوں کے فیصلوں کو ملک کی دیگر اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن انسانی حقوق کے کارکنان یہ کہہ کر فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں کہ یہ ملک میں رائج نظام عدل کے مساوی نظام عدل مرتب کرنے کی کوشش ہے اور اس کی بجائے عدلیہ کو مزید فعال کرنے کے لیے اقدام کیے جانے چاہیئں۔
انسانی حقوق کمیشن نے اپنے بیان میں شہریوں کی جبری گمشدگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے اس ضمن میں تشکیل دیے کمیشن میں جن کیسز کی تحقیقات کی جا رہی ہے "بظاہر وہ کسی سمت جاتے دکھائی نہیں دیتے اور لاپتا افراد کی نشاندہی اور ان کی بازیابی میں یہ کمیشن بے بس اور غیرموثر معلوم ہو رہا ہے۔"
کمیشن نے کہا کہ پاکستان میں خواتین، بچے اور مذہبی اقلیتیں اب بھی تشدد کے خطرے سے دوچار ہیں جس کے تدارک کے لیے صرف ردعمل میں ہی کوئی اقدام نہیں کیا جانا چاہیے۔
کمیشن نے حکومت پر زور دیا کہ اندرون ملک بے گھر ہونے والے ایسے افراد جو اپنے "تباہ شدہ گھروں کو واپس گئے ہیں"، ان کی حالت زار سے گریز کرنا کسی صورت بھی دانشمدانہ نہیں ہوگا۔
حکومت کا موقف رہا ہے کہ شورش زدہ علاقوں، بالخصوص وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ’’فاٹا‘‘ سے بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کا عمل مکمل کرنا اور اُن کی بحالی ترجیح ہے۔