پاکستان میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی ایک معروف غیر سرکاری تنظیم نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت اور سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ مل بیٹھ کر ہنگامی بنیادوں پر کراچی میں خونریزی کو روکنے کا حل ڈھونڈیں جہاں رواں سال اب تک 300 افراد تشدد کے ان واقعات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آرسی پی) نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک مفصل بیان میں کہا ہے کہ کراچی میں تشدد کی تازہ لہر اورایک بار پھرامن وامان کی خرابی پر اُسے گہری تشویش ہے۔
’’ایچ آرسی پی خون خرابے کے حالیہ اُس دورانیے پر مضطرب اورغمزدہ ہے جس نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تسلسل کے ساتھ ہڑتالوں کے اعلانات اور اس کے نتیجے میں تشدد بھاری جانی ومالی نقصانات کا باعث بنے ہیں۔ ان گنت دیگر لوگ خوف کے مارے گھروں سے نکل کر کام کاج کے لیے جانے سے قاصر ہیں۔‘‘
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں 2011ء میں تشدد کے ایسے واقعات میں لگ بھگ 1800 لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔
ایچ آرسی پی کا کہنا ہے کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کراچی میں تشدد کے زیادہ تر واقعات کا تعلق شہر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی تیز ہوتی جنگ سے ہے جس میں بڑی سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
’’جب قاتلوں کو مطلوبہ اہداف حاصل ہو جائیں گے تو ماضی کی طرح کراچی میں تشدد کا حالیہ سلسلہ بھی وقتی طور پر رُک جائے گا۔ یہ صورت حال کسی طور قابل قبول نہیں۔ حقیت یہ ہے کہ جب بھی شہر میں تشدد کی کاروائیاں بڑھی ہیں حکومت قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘
ایچ آرسی پی نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ مسلح گروہوں کوخاص طور پر کراچی کے علاقے لیاری میں تشدد کے زیادہ تر واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے مگر امن عامہ کی بگڑی ہوئی اس صورت حال کا فائدہ عام جرائم میں ملوث افراد کو بھی ہوا ہے۔
’’ ریاست کی عملداری بحال کرنےاور ذمہ داران کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلانے کی بجائے حکومت نے سیاسی اتحادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی پالسی پر انحصار کیا ہے۔ مگر یہ پالیسی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔‘‘
تنظیم نے کہا ہے کہ اگر حکومت کراچی میں بلا امتیاز کارروائی کرنے کے اپنے عزم میں مخلص ہے تو پھر اُسے ہرحال میں شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم شروع کرنے چاہیئے۔ ’’ حکومت کو تشدد کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو مناسب معاوضوں کی ادائیگی بھی کرنی چاہیئے۔‘‘
کراچی میں تشدد کے حالیہ واقعات ایک ہفتہ قبل شہر کی با اثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم کے ایک مقامی رہنماء کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے اور ایک ہفتے کے دوران کم از کم 35 افراد لقمہ اجل بنے۔
مرنے والوں میں حکمران پیپلز پارٹی کے علاوہ اس کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان بھی شامل تھے۔
پر تشدد واقعات کے بعد صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں حکام کو شرپسند عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں سے کوئی رعایت نا برتی جائے۔