کراچی میں پرتشدد واقعات اور فائرنگ کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور جمعہ کو حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے تین کارکنان سمیت مزید پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد پر انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
کراچی میں دس روز قبل ایم کیو ایم کے سیکٹر انچار ج کی ہلاکت کے بعد سے اب تک تشدد کی لہر جاری ہے جس میں اب تک تقریبا 68 لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ مرنے والوں میں سیاسی کارکن ، پولیس اور رینجرز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس دوران صدزرداری اور وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی کراچی میں قیام کیا تاہم اس کے باوجود وقفے وقفے سے شہر میں نامعلوم افراد کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ جاری رہی۔
جمعہ کو اورنگی ٹاوٴن اردو چوک پر نامعلوم افراد نے پیپلزپارٹی کے تین کارکنان کو قتل کر دیا۔ہلاک ہونے والوں کے لواحقین وزیراعلیٰ ہاوٴس کے سامنے مظاہرہ کرنا چاہتے تھے ، تاہم انہیں پولیس نے شاہین کمپلیکس کے پاس روک لیا۔بعدازاں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی یقین دہانی پر مظاہرین منتشر ہو گئے۔
اورنگی ٹاوٴن کے علاوہ سرجانی میں ایک پیش امام مولانا نعیم اور ملیر میں ایک شخص غلام عباس نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس واقعہ کے خلاف ملیر 15میں شدید احتجاج کیا گیا اور کاروبار زندگی بند رہا۔
دوسری جانب جمعہ کو ہی صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان نے حیدرآباد میں میڈیا کو بتایا کہ انہیں رپورٹ ملی تھی کہ کچھ عناصر کراچی میں لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد پر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے فوری احکامات جاری کئے اور کراچی میں رینجرز کو پولیس کے مساوی اختیارات دے دیئے گئے ۔
انہوں نے بتایا کہ پرتشدد واقعات سے متعلق رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ان کے بقول، کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کی ذمے داری پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم ،اے این پی اورسنی تحریک سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ نے کہاہے کہ جمعرات کو ہونے والے ملیر ہالٹ خود کش دھماکے پر واقعہ کا سبب جاننے اور ذمہ داران کے تعین کیلئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔