'ہیومن رائٹس واچ' کا کہنا ہے کہ بظاہر سعودی قیادت والے اتحاد نے یمن کے ساحل پر صومالی شہریوں کو لے جانے والی ایک کشتی کو حملے کا نشانہ بنایا، جس سے اس معاملے کے احتساب کی نشاندہی ہوتی ہے، جس تنازعے کو اب دو سال ہو چکے ہیں۔
اتوار کو جاری ہونے والے بیان میں توجہ دلائی گئی ہے کہ تنازعے میں ملوث تمام فریق نے کشتی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کی تردید کی ہے، جس میں سوار 145 صومالی تارکین وطن اور مہاجرین میں سے 30 سے زائد ہلاک ہوئے۔ لیکن، 'ہیومن رائٹس واچ' نے کہا ہے کہ صرف سعودی قیادت والی افواج کے پاس ہی فوجی طیارے ہیں۔
سارہ لی وٹسن، ہیومن رائٹس واچ میں مشرقی وسطیٰ کے بارے میں شعبے کی سربراہ ہیں۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ کشتی پر سوار لوگوں پر بظاہر اتحاد کی جانب سےمہاجرین پر کی گئی فائرنگ کا معاملہ یمن کی اس دو سالہ طویل جنگ میں ممکنہ جنگی جرم ہو سکتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ شہری آبادی کی زندگی کی پرواہ نہ کرکے سنگ دلی کی مثال قائم کی گئی ہے''۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، کشتی میں سوار چا افراد نے بتایا ہے کہ 13 مارچ کو تقریباً 9 بجے رات اُنھوں نے ایک ہیلی کاپٹر کو گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اتوار کے روز دارالحکومت صنعا کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں یمنی نکل آئے، جو سعودی قیادت والی فوجی مداخلت پر احتجاج کر رہے تھے۔
مارچ 2015ء جب سے سعودی قیادت والا اتحاد ایران کے اتحادی حوثی باغیوں اور یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار افواج سے لڑ رہا ہے، اُس کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر عبد ربو منصور ہادی کا اختیار بحال کیا جا سکے۔