شدت پسند تنظیم داعش کی طرف سے یزیدی فرقے کی خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات سے تو دنیا واقف ہے لیکن انسانی حقوق کی موقر بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" نے دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسندوں نے عرب سنی خواتین کو بھی جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
پیر کو ایک رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ اس نے داعش کے زیر قبضہ عراقی قصبے حویجہ سے فرار ہونے والی خواتین کو شدت پسندوں کی طرف سے قید میں رکھنے، جسمانی تشدد، جبری شادیاں اور جنسی زیادتیوں کے واقعات کی تفصیلات جمع کی ہیں۔
ان خواتین میں شامل ایک 26 سالہ خاتون حنان کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ اس کا شوہر پہلے ہی حویجہ سے فرار ہو چکا تھا اور جب اس نے دیگر چند خواتین کے ساتھ یہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو داعش کے جنگجوؤں نے انھیں پکڑ لیا۔
شدت پسندوں نے حنان کو بتایا کہ اس کے شوہر کے یہاں سے چلے جانے کے بعد اب وہ مرتد ہو گئی ہے لہذا اسے مقامی شدت پسند سے شادی کر لینی چاہیے۔
لیکن جب خاتون نے اس سے انکار کیا تو اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے پلاسٹک کی تاروں سے مارا جانے لگا اور اس کے ہاتھ باندھ کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
حنان نے ہیومن رائٹس واچ سے اپنے تکلیف دہ بھیانک تجربے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک شدت پسند بعدازاں ایک ماہ تک اسے آنکھوں پر پٹی باندھے بغیر اپنے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔
تنظیم کی مشرق وسطیٰ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر لاما فقیہ کہتی ہیں کہ شدت پسندوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سنی عرب خواتین سے داعش کی زیادتیوں کے معاملے پر بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔
"ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری اور مقامی حکام ان متاثرین کو وہ تمام مدد فراہم کریں گے جو وہ کر سکتے ہیں۔"
داعش نے 2014ء کے وسط میں عراق اور شام کے ایک وسیع رقبے پر قبضہ کر کے یہاں نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا اور اس کے شدت پسند خاص طور پر اقلیتی یزیدی برادری کے قتل عام کے علاوہ ان خواتین سے یہ کہہ کر جنسی زیادتی بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ غیر مسلم اور بے دین ہیں۔
عراق اور شام میں داعش کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی اتحادی افواج کی کارروائیوں کی بدولت شدت پسند ایک بڑے رقبے سے اپنا تسلط کھو چکے ہیں لیکن اب بھی بہت سے علاقوں پر ان کا قبضہ ہے۔