جب اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند ہمارے قصبے میں داخل ہوئے تو میں 14 دوسرے لوگوں کے ساتھ بھاگ کر اپنے بہنوئی کے گھر چلی گئی۔ میں ان دنوں ماں بننے والی تھی ۔ ہم وہاں سے نکلنے لگے تو عسکریت پسندوں نے ہمیں پکڑ لیا۔
اگلے روز انہوں نے عورتوں کو مردوں سے الگ کر دیا اور ہمیں ایک جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس دوران ہوائی حملے جاری تھے اور وہ ان حملوں سے بچنے کے لیے مسلسل سفر کررہے تھے۔ آخرکار وہ ہمیں ایک ویران اور غیر آباد گاؤں میں لے گئے۔
میں نے انہیں بتایا کہ میں ماں بننے والی ہوں، لیکن انہوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتی ہو۔ تھوڑے عرصے کے بعد بچہ پیدا ہوا، لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہاں سے مجھے رقہ بھیج دیا گیا۔
رقہ میں داعش کے ایک سعودی جنگجو نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ میر ے ساتھ چلو۔ اگر نہیں جاؤ گی تو میں تمہارا بچہ اٹھا کر لے جاؤں گا۔
میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ وہ مجھے حلب لے گیااور وہاں داعش کے ایک کمانڈر کے پاس بیچ دیا۔ فرض کریں کہ اس کا نام محمود تھا۔ اس نے مجھے ایک گھر کے بالائی کمرے میں رکھا۔ اس مکان پر داعش کا قبضہ تھا اور وہ ان کے مرکز کے قریب تھا۔ کمانڈر نے میرا نام بدل کر لامیا رکھ دیا۔
وہ مجھے لوگوں کے سرقلم کرنے کی دیڈٰیوز دکھایا کرتا تھا۔ مجھے ان سے ڈر لگتا تھا۔ لیکن اس کا کہنا تھا کہ میں یہ ویڈٰیوز تمہیں بہادر بنانے کے دکھاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اسی قابل ہیں کہ جانوروں کی طرح ان کا گلا کاٹا جائے۔
جب مجھے محمود کے ساتھ رہتے ہوئے پانچ مہینے ہو گئے تو ایک روز اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم کرد ہو اور آج کردوں کا تہوار نو روز ہے۔ میں اس موقع پر تمہیں ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ تم جلدی سے اچھے کپڑے پہن لو اور اپنے بیٹے کو بھی تیار کرکے نیچے آجاؤ۔
جب میں نیچے گئی تو وہاں نارنجی کپڑوں میں ملبوس 25 افراد کھڑے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ داعش کے امیر نے ان کے شناختی کارڈ چیک کر کے کہا کہ یہ سب لوگ پیش مرگہ کے فوجی ہیں۔ پھر اس نے ایک رجسٹر کھول کر اس پر دستخط کیے۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ یہ ان کی گردنیں اڑانے کا حکم تھا۔
داعش کے جنگجوؤں نے اس سب کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر گھٹنوں کے بل بٹھا دیا۔ اور ایک ایک کرکے ان کے سر تن سے جدا کر دیے۔ پھر محمود نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ ان کی نعشوں کو کتوں کے آگے پھینک دو ۔ یہ لوگ اسی قابل تھے۔
یہ میرے لیے محمود کی طرف سے نوروز کا تحفہ تھا۔ میں خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی۔
یہ واحد ایسا واقعہ نہیں ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو وہاں ہوتے رہتے تھے۔ ان چیزوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔
میری کہانی کا سب سے تکلیف دہ پہلو مجھ سے روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ داعش کے جنگجوؤں میں سے جس کا بھی دل چاہتا تھا، وہ میرے ہاتھ باندھتا تھا اور مجھ سے جنسی زیادتی کرلیتا تھا۔ میں پہلے ہی ان کی قید میں تھی ۔ انہیں میرے ہاتھ باندھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن وہ ہمیشہ طاقت کا استعمال کرتے ۔
پھر انہی دنوں حالات خراب ہونے لگے اور لڑائیوں میں انہیں شکست ہونے لگی۔ جب بھی انہیں کسی جگہ شکست ہوتی وہ اس ہار کا بدلہ میرے ہاتھ باندھ کر جنسی زیادتی کی صورت میں لیتے۔
پھر ایک دن کوبانی کا اہم قصبہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس روز وہ لوگ اتنے اشتعال میں تھے کہ انہوں نے مجھے بری طرح باندھا اور چار لوگوں نے مجھ سے اجتماعي جنسی زیادتی کی۔
اور پھر میری زندگی میں ایک ایسا دن بھی آیا جس نے میرا مقدر بدل دیا۔ ہوا یہ کہ میرے خاندان نے میری رہائی کے لیے مختلف ذرائع سے رابطے کیے اور ایک خاص رقم کی ادائیگی پر سمجھوتہ ہوگیا۔ تاوان کی رقم کرد حکومت نے ادا کی۔
اب میں اپنے گھر آ چکی ہوں۔ گذرے ہوا وقت مجھے ایک ڈرانے اور بھیانک خواب جیسا لگتا ہے۔ میں ایک بار پھر سے خلیفہ بن گئی ہوں۔ خلیفہ جو میرا اصل نام ہے۔ میں اس نام سے اپنی زندگی پھر سے شروع کرنا چاہتی ہوں۔ میں بولنا چاہتی ہوں اور یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ان ہزاروں لڑکیوں کو ہرگز نہ بھولیں جو ابھی تک داعش کی قید میں ہیں ۔ وہ ہر روز اسی جہنم سے گذر رہی ہے جس سے میں بچ کر آ گئی ہوں۔
یزیدی لوگ اور کچھ نہیں چاہتے۔ ان کا اور کوئی خواب نہیں ہے صرف اس کے کہ ان کی بیٹیاں اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔