ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ سنہ 2013 اور 2014 کے برسوں کے دوران، روس سے چین اور ایتھیوپیا سے ترکی تک انسانی حقوق کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئیں، جن کے باعث 2015ء موجودہ نسل کا سب سے زیادہ پُر شور سال ثابت ہوا۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کی خاص بات اور سب سے ڈرامائی چیلنج دولت اسلامیہ کے خود ساختہ شدت پسند گروہ کا نمودار ہونا تھا۔
بدھ کے روز ترکی کے شہر استنبول میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، جہاں سال 2015کی یہ عالمی رپورٹ جاری کی گئی، ادارے کے انتظامی سربراہ، کینتھ رتھ نے بتایا کہ دنیا بھر کی مطلق العنان حکومتیں سماجی میڈیا کی مدد سے مضبوط ہونے والے متمدن معاشروں کا خصوصی دباؤ محسوس کرنے لگی ہیں۔
بقول کینتھ رتھ، ’’خاص طور پر گذشتہ سال جو بات ہمارے دھیان میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے آمروں کی مطلق العنان حکومتیں سول سوسائٹی کے ہاتھوں خوف زدہ ہونے لگی ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ سماجی میڈیا نے اُنھیں طاقت ور بنایا ہے، جس کا نمایاں اظہار موبائیل فون کے ذریعے ہوا ہے۔ چونکہ، اس سے مراد یہ ہے کہ شہری گروپوں کے لیےسڑکوں پر موجود لوگوں کی کثیر تعداد کو متحرک کرنا آسان ہوگیا ہے، تاکہ وہ سرکاری پالیسی کے خلاف احتجاج کر سکیں۔‘‘
رپورٹ میں 90 سے زائد ملکوں میں انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا، جس میں روس اور چین میں متمدن معاشرے کے افراد کے خلاف سخت کارروائیوں کی نشاندہی کی گئی۔
رتھ نے اُن اقدامات کی جانب دھیان مبذول کرایا جنھیں غیرملکی فنڈ میسر آتے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ سرگرم چینی کارکن انسانی حقوق کے ادارے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جنھیں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے بے دریغ استعمال کے تحت گرفتاری کا خوف رہتا ہے۔ بقول اُن کے، ایک حد تک اِس کی وجہ سماجی میڈیا کا تیزی سے فروغ پانا ہے۔
رتھ کے بقول، ’’سول سوسائٹی کا یہ خوف خاص طور پر روس اور چین میں نمودار ہوا ہے۔ چونکہ دونوں (روسی صدر ولادیمیر) پیوٹن اور (چینی صدر) ژی جِنگ پِنگ نے اپنی عوام کے ساتھ سمجھوتا سا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو خوش حالی دیں گے؛ آپ ہمیں حقیقی احتساب کے بغیر حکمرانی کرنے دیں۔ اور یہ کہ یہ معاہدہ رہنماؤں کی حد تک کارآمد رہا ہے، کیونکہ معیشت میں بہتری آئی ہے۔ لیکن، اب جب کہ معیشت مسئلے کی شکار ہے، وہ لیڈر خوف زدہ ہیں کہ اُن کی عوام احتجاج پر اتر آئے گی۔‘‘
اُن کے حقوق انسانی کے ریکارڈ پر نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے، چین نے کہا ہے کہ اُن کا ملک قانون کے تحت چلتا ہے اور یہ کہ اپنے داخلی امور میں بیرونی مداخلت پر اُسے اعتراض ہے۔
روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ مغرب اپنے شہری حقوق کے گروپوں کو استعمال کرتے ہوئے روس میں کشیدگی کو ہوا دے، جس سے مراد یہ ہے کہ عمومی طور پر اُن کی سرگرمیوں کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں جن میں روس کے سیاسی نظام کو ہیچ دکھایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں یورپ کی جانب سے مہاجرین کے بحران سے نبردآزما ہونے کی کوششوں پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے براعظم کے اصل اقدار کو دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ شام اور دیگر مقامات سے یورپ جانے والے مہاجرین کے معاملے پر کچھ سیاسی جماعتیں اسلام کے خلاف غلط تاثر پیدا کر رہی ہیں۔
شام امن مذاکرات کے بارے میں ایک سوال پر، جو جمعے سے سوٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں شروع ہونے والے ہیں، رتھ نے زمین پر ہونے والے مظالم کے حل کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں پر نکتہ چینی کی۔