وائٹ ہاؤس نے اتوار کے روز ایک بیان میں جو زیادہ تر یوکرین پرمرکوزتھاکہا گیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں پر گفتگو کی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس نے ان چاروں کے درمیان ٹیلی فون کال کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ " انہوں نے اس کے علاوہ جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات ، مشرق وسطٰی کے خطےمیں شراکت داروں کی حمایت مضبوط بنانے کی ضرورت ، اور ایران کی غیر مستحکم کرنے والی سر گرمیوں کو روکنے اور ان پر کنٹرول کی مشترکہ کوششوں پربات چیت کی ۔
وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور جرمن چانسلر اولاف شولز کے درمیان ہونے والی بات چیت میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے شامل امور کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
یورپی یونین اور امریکہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں ایران کے جواب کا جائزہ لے رہے ہیں جسے یورپی یونین نے اس معاہدے کی بحالی سے متعلق اپنی "حتمی" تجویز قرار دیا ہے، جس کے تحت تہران نے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو روک دیا تھا۔
رائٹرز کے مطابق جوہری مذاکرات میں ناکامی سے ایک تازہ علاقائی جنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، کیوں کہ اسرائیل نے دھمکی دی ہے اگر سفارت کاری تہران کو جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کے حصول کو روکنے میں ناکام رہی تو وہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔
ایران نے، جو طویل عرصے سے اس قسم کے عزائم رکھنے سے انکار کرتا رہا ہے، خبردار کیا ہے کہ کسی بھی اسرائیلی حملے کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔
2018 میں، اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ سنبھالنے سے پہلے طے پانے والے جوہری معاہدے کو ایران کے لیے بہت نرم قرار دیتے ہوئے اس سےپیچھے ہٹ گئے تھے اور اس پر دوبارہ سخت امریکی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس سے اسلامی جمہوریہ ایران کو یورینیم کی افزودگی پر اپنی حدود کی خلاف ورزی شروع کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا)