رسائی کے لنکس

ایران ایٹم بم بنانے کی تکنیکی صلاحیت رکھتاہے: ایرانی حکام کا اعتراف


ایرانی پرچم (ٖفائل فوٹو)
ایرانی پرچم (ٖفائل فوٹو)

ویب ڈیسک۔ ایرانی حکام اب کھلے عام اس بات کا تذکرہ کر رہے ہیں جس کی تہران طویل عرصے تک تردید کرتا آیا ہے یعنی ہتھیاروں کے درجے کے مواد کی قریب ترین سطح پر یورینیم کوافزودہ کرنے کی تیکنکی صلاحیت، یہ وہ حد ہے جس کے بعد اسلامی جمہوریہ جب چاہے جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے خلیج اورایران کے نیوز ڈائریکٹرجون گیمبریل 2006 سے خلیج تعاون کونسل کے ملکوں اور ایران کے بارے میں خاص طور سے رپورٹنگ کرتے آرہے ہیں۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں اپنی اس تجزیاتی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ایران کے ان حالیہ اعلانات کا مقصد امریکہ سے مزید رعائتیں حاصل کرنا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض تجزیہ کارشمالی کوریا کی مثال دیتے ہیں، جس نے تقریباً 20 سال پہلے یہی کیا تھا۔

ان میں بہت سی باتوں کی آزمائش جمعرات کو شروع ہونے والے مذاکرات میں ہو سکتی ہے جب ایران، امریکہ اور یورپی یونین مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کو جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں آخری کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس میں ایک آن لائن ایرانی ویڈیو بھی شامل ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ملک کے بیلسٹک میزائل "نیویارک کو جہنم کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتے ہیں۔"

۔ ایران اور یورپی یونین کے اعلی مذاکرات کار (فائل فوٹو)
۔ ایران اور یورپی یونین کے اعلی مذاکرات کار (فائل فوٹو)

مبالغہ آرائی کو ایک طرف رکھتے ہوئے، مجموعی طور پراستعمال کی گئی زبان کو تہران کی طرف سے لفظی اشتعال انگیزی کہا جا سکتا ہے۔

سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیرکمال خرازی نے جولائی کے وسط میں الجزیرہ کو بتایا تھا کہ چند دنوں میں ہم 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اوراب ہم آسانی سے 90 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر سکتے ہیں۔ ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کے تکنیکی ذرائع موجود ہیں لیکن ایران کی طرف سے اسے بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے،" 90 فیصد افزودہ یورینیم کو جوہری ہتھیاروں کے درجے کا سمجھا جاتا ہے۔

اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کے زیرانتظام ثقافت کے وزیرعطاء اللہ مہاجرانی نے اسی دوران ایران کے روزنامہ اعتماد میں لکھا کہ خرازی کا یہ اعلان کہ ایران جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے، اسرائیل اور صدر جو بائیڈن کے لیے ایک "اخلاقی سبق" فراہم کرتا ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین بیان ایران کی سویلین نیوکلیئرایجنسی کےسربراہ محمد اسلامی کا ہے جنہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے ممکنہ عسکری پہلو کے بارے میں اپنا تبصرہ رقم کیا ہے۔

نیم سرکاری فارس نیوزایجنسی کے مطابق اسلامی نے پیرکو کہا کہ "ہرچند مسٹرخرازی نے بتایا کہ ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کی تکنیکی صلاحیت ہے، مگر ایجنڈے میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔"

نیم سرکاری ایجنسی نے بعد میں کہا کہ یہ بات "غلط فہمی اورغلط اندازوں پر مبنی ہے - ممکنہ طور پراس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایران کی مذہبی قیادت یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس معاملے کو اتنے ٹھوس اور واضح طور بیان کیا جائے۔ تاہم اسلامی کا یہ بیان دوسروں کے مقابلے میں اس لیے زیادہ وزن رکھتا ہے کیونکہ انہوں نے ایران کے فوجی جوہری پروگرام سے منسلک ایرانی دفاعی ایجنسیوں کے لیے براہ راست کام کیا ہے جن میں ایک وہ بھی شامل ہے جس نے خفیہ طور پر پاکستانی جوہری مواد اور معلومات پھیلانے والے عبدالقدیرخان کی مدد کے ساتھ یورینیم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز بنائے تھے۔

لیکن 2003 تک، امریکی خفیہ ایجنسیوں، امریکہ کے یورپی اتحادیوں اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی IAEA کے معائنہ کاروں کے مطابق، ایران نے اپنا فوجی جوہری پروگرام ترک کر دیا تھا۔

بالآخر، ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے پر پہنچ گیا، جس کے تحت اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی جبکہ ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں میں بڑی حد تک کمی کی۔ معاہدے کے تحت، تہران IAEA کے نگرانی کے کیمروں اورانسپکٹرز کی مسلسل جانچ پڑتال کے تحت 300 کلوگرام (660 پاؤنڈ) کے یورینیم کے ذخیرے کو برقرار رکھتے ہوئے، 3.67 فیصد تک یورینیم افزودہ کر سکتا ہے۔

لیکن اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکہ کو 2018 میں اس معاہدے سے الگ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر رو گردانی کررہا ہے۔

عالمی جوہری توانائی ایجنسی
عالمی جوہری توانائی ایجنسی

IAEA کےتازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ایران کے پاس تقریباً 3,800 کلوگرام (8,370 پاؤنڈ) افزودہ یورینیم کا ذخیرہ ہے۔ ماہرین کے لیے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایران اب یورینیم کو 60 فی صد تک خالصتاً افزودہ کررہا ہے۔ اس سطح پروہ اس سے پہلے کبھی نہیں پہنچا تھا، یہ 90 فی صد تک پہنچنے کے لیے ذرا سی تیکنکی کثرباقی رہ گئی ہے۔ ان ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے پاس کم از کم ایک جوہری بم کے لیے ایندھن میں دوبارہ پروسیس کرنے کے لیے 60 فیصد افزودہ یورینیم موجود ہے۔

ایرانی سفارت کاروں نے برسوں سے خامنہ ای کے تبلیغی بیانات کو ایک پابند فتویٰ یا مذہبی حکم کے طور پرلیا ہے، جس کا مطلب یہ نکالا کہ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا۔

خامنہ ای نے نومبر 2006 کی تقریر میں کہا تھا "ہمیں جوہری بموں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا ایٹمی بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔''

لیکن ایسے احکام پتھر پر لکیر نہیں ہوتے۔ خامنہ ای کے پیشرو آیت اللہ روح اللہ خمینی نے فتویٰ جاری کیا تھاجس میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے اپنے پہلے کے اعلانات پر نظرثانی کی گئی تھی ۔ اورکوئی بھی جو 83 سالہ خامنہ ای کے بعد ملک کے سپریم لیڈر کے طور حکومت سنبھالے گا، وہ سابقہ فتووں پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہیں ۔ ساتھ ساتھ ایرانی رائے عامہ بھی بدلتی نظر آتی ہے۔

ٹورانٹو میں قائم فرم IranPoll کے جولائی میں کیے گئے ایک ٹیلی فون سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی عوام کا ایک تہائی حصہ اب جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو ترک کرنے اورجوہری بم کے حصول کی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ ستمبر 2021 میں کیے گئے سروے کے مطابق 10 میں سے ایک سے کم جواب دہندگان نے ایسے اقدام کی حمایت کی تھی۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG