رسائی کے لنکس

خون کی کاشت


خون کی کاشت
خون کی کاشت

دنیا کی آبادی سات ارب ہوگئی ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ علاج معالجے کے لیے انسانی خون کی ضرورت آٹھ فی صد سالانہ سے بڑھ رہی ہے۔ جب کہ عطیے سے حاصل ہونے والے خون کی رسد بہت محدود ہے۔ ماضی میں مصنوعی خون تیار کرنے کی کوششیں زیادہ کارگر نہیں رہیں ۔ لیکن اب سائنس دانوں کو توقع ہے کہ انسانی ڈی این اے کی پیوند کاری سے اصلی جیسا انسانی خون پیدا کرنے والی چاول کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے شعبہ جینیات کے پروفیسر اسٹیو جونز کا کہناہے کہ انسان کا 50 فی صد ڈی این اے کیلے جیسا ہے۔ گویا کیلا انسان کا نصف رشتے دار ہے۔ کئی ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کیلے کی طرح چاول بھی انسان کا رشتے دار ہے اور اس کا انسا ن سے خون کارشتہ ہے۔چاول سے نہ صرف خون حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے اصلی خون کی طرح بلاخوف خطر مریضوں کودیا بھی جاسکتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہناہے کہ چاول کے پودوں میں انسانی ڈی این اے کی پیوند کاری کر کے خون کا ایک اہم جزو پلازما حاصل کیا جاسکتا ہے۔جسے اسپتالوں میں ان مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے،جنہیں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کو توقع ہے کہ چاول کی جینیاتی فصل کاشت کرکے اتنی بڑی مقدار میں انسانی خون کا متبادل حاصل کیا جاسکتا ہے کہ پھر شاید خون کا عطیہ دینے والوں کی ضرورت باقی نہ رہے۔

دنیا بھر میں خون کی بڑھتی ہوئی طلب اور اس کے مقابلے میں عطیہ دینے والوں کی کمی نے سائنس دانوں کی توجہ خون کے ایسے متبادل تیار کرنے پر مرکوز کروا دی ہے ، جو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اصلی انسانی خون جیسا ہو اور اس کا استعمال انسانی صحت کے لیے محفوظ ہو۔

حال ہی میں برطانوی سائنس دانوں نے سٹم سیل سے لیبارٹری میں اصلی خون تیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا خون ایک عشرے کے اندر میڈیکل اسٹوروں پر کھلے عام ملنے لگے گا جو تین سال تک کے لیے قابل استعمال ہوگا جب کہ اصلی خون 42 دن کے بعد اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔

خون کی کاشت
خون کی کاشت

اور اب حال ہی میں چین کے سائنس دانوں نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے چاول کے پودے میں جینیاتی تبدیلی کرکے کامیابی کے ساتھ ایسی فصل اگالی ہے جو انسانی خون کا حقیقی متبادل فراہم کرسکتی ہے۔

انسانی خون کے تین بنیادی حصے ہیں ، یعنی سرخ خلیے، پلیٹ لٹس اور پلازما۔

سرخ خلیے پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر دماغ اور جسم کے تمام حصوں تک پہنچاتے ہیں اور استعمال شدہ کاربن ڈائی اکسائیڈ واپس پھیپھڑوں میں لاتے ہیں جو انہیں سانس کے ذریعے خارج کردیتے ہیں۔

پلیٹ لٹس جمنے کی صلاحیت رکھنے والے باریک ذرات ہوتے ہیں۔ یہ جسم سے خون کا اخراج روکتے ہیں اور زخم کو بند کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ بعض امراض میں، جن میں ڈینگی بخار بھی شامل ہے، خون میں پلیٹ لٹس کی مقدار کم ہوجاتی ہے اور جسم سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے جو زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

خون کا تیسرا اور سب سے بڑا بنیادی جزو پلازما کہلاتا ہے جوایک خاص پروٹین’ ہیومن سیرم البومین ‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ خون کی شدید کمی کی صورت میں مریض کو عموماً پلازما دیا جاتا ہے۔

خون کی کاشت
خون کی کاشت

چین کی ووہان یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ چاول میں جینیاتی تبدیلیاں کرکے بڑی مقدار میں ’ہیومن سیرم البومین‘ کاشت کیا جاسکتا ہے ، جو اسپتالوں میں خون، بالخصوص پلازما کی بڑھتی ہوئی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ اس وقت پلازما عطیے سے حاصل ہونے والے خون سے تیار کیا جاتا ہے۔

خون کا 55 فی صد حصہ پلازما پر مشتمل ہوتا ہے۔ پازما خون میں سب سے اہم کردار ا دا کرتا ہے۔ جن میں ہارمونز، وٹامنز ، معدنیات اور خوراک فراہم کرنے والے دیگر مرکبات کو جسم کے تمام حصوں تک پہنچانا اوراستعمال شدہ فاسد مادوں کو اخراج کے لیے جگراور گردوں تک واپس لے جاناشامل ہے۔گویا پلازما خوراک کی فراہمی اور اندورنی صفائی جیسے اہم ترین امور انجام دیتا ہے۔

پلازما خون کے دباؤ کو بھی اعتدال پر رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

وسطیٰ چین میں واقع ووہان یونیورسٹی کے سائنس دان ڈاکٹر دائی چنگ یانگ ، جو اس تحقیق کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ہیومن سیرم البومین ایک انتہائی اہم پروٹین ہے اور دنیا کے اسپتالوں میں اس کی سالانہ مانگ کا تخمینہ 500 ٹن سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر یانگ کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ چاول کے پودے میں جینیاتی تبدیلی کے ذریعے انسانی پلازما کا یہ بنیادی جزو بڑی مقدار میں باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

خون کی کاشت
خون کی کاشت

چاول سے پلازما کی تیاری کے لیے ڈاکٹر یانگ نے ایک منفرد طریقہ استعمال کیا۔ انہوں نے چاولوں کی ایک قسم میں بیکٹریا کی مدد سے انسانی ڈی این اے داخل کیا، جس سے چاول کے پودے انسانی خون کا پلازما تیار کرنے لگے۔

جریدے ’پروسیڈنگ آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چاول سے حاصل ہونے والا پروٹین کیمیائی اور طبی لحاظ سے اصلی خون جیسا ہے۔ڈاکٹر یانگ کا کہناہے کہ چوہوں پر کیے جانے والے تجربات حوصلہ افزا ہیں جس سے اس کے انسانوں میں استعمال کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

ڈاکٹر دائی چنگ یانگ اپنے تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ اب وہ چاولوں کی فصل سے انسانی خون میں شامل دوسرے اجزاء مثلاً سرخ خلیے جنہیں ہیموگلوبین کہا جاتا ہے، حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کی ٹیم چاولوں میں جینیاتی تبدیلی کرکے ذیابیطس کے مرض پر قابوپانے والا پروٹین تیار کرنے کے تجربات بھی کررہی ۔

چین میں کچھ عرصے سے انسانی جین کی پیوندکاری پر تحقیقی کام ہورہاہے۔ چند ماہ پہلے چین کے سائنس دانوں نے گائے میں انسانی جین داخل کرکے ایک منفرد نسل کی تین سو ایسی گائیں تیار کی تھیں جن سے حاصل ہونے والے دودھ میں انسانی دودھ کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ لیکن اس تحقیق کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG