رسائی کے لنکس

چمن دھرنے سے متعلق ایچ آر سی پی کی رپورٹ: متاثرین سے فوری رابطے کی سفارش


  • ایچ آر سی پی کی ایک ٹیم نے چمن میں حقائق تلاش کرنے کے مشن کی قیادت کی۔
  • سرحد پر کاروبار سے وابستہ مزدوروں کی تعداد 20 سے 25 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت کا تعلق سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ سے ہے۔
  • بلوچستان میں حالیہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی صوبائی حکومت نے تاحال چمن میں مظاہرین سے کوئی ملاقات نہیں کی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے چمن میں پانچ ماہ سے جاری دھرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تاجر برادری اور مزدوروں کے تحفظات دُور کرنے کی سفارش کی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس نگراں حکومت نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دیا تھا۔

نگراں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف گزشتہ سال 21 اکتوبر سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام ’باب دوستی‘ کی جانب جانے والی سڑک پر چمن کے مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔

منگل کو ایچ آر سی پی نے اس حوالے سے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی ہے جس میں حکومت کو متاثرہ فریقوں سے رابطے کی سفارش کر کے مقامی تاجروں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنےکے لیے کہا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو سرحدی پابندیوں کے اثرات کے پیشِ نظر پالیسی بناتے وقت انسانی ہمدردی کے تحفظات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی جائز ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔

ایچ آر سی پی کی ایک ٹیم نے چمن میں حقائق تلاش کرنے کے مشن کی قیادت کی۔

اس مشن میں ایچ آر سی پی بلوچستان کے وائس چیئرمین کاشف پانیزئی اسٹاف ممبر فرید احمد اور اراکین شمس الملک مندوخیل اور عبدالمنان شامل تھے۔

دھرنے میں شریک بیش تر افراد مقامی مزدور ہیں جو سرحد کے دونوں جانب کاندھوں پر سامان لاد کر لاتے اور لے جاتے ہیں جنہیں ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔

لغڑیوں کو پہلے حکومت نے سامان سرحد پار لے جانے اور لانے کی اجازت دی تھی۔ تاہم اب ان کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط لازمی قرار دی گئی ہے۔

سرحد پر کاروبار سے وابستہ مزدوروں کی تعداد 20 سے 25 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت کا تعلق سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ سے ہے۔

'حکومت ایچ آر سی پی کی سفارشات پر عمل کرے'

سرحد پار افغانستان کے صوبہ قندھار کے سرحدی ضلع اسپن بولدک کے بھی چند ہزار لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔

چمن دھرنے کے ترجمان صادق اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو رپورٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہمیں بنیادی حقوق دینے چاہئیں۔

ان کے بقول "ہم بھی یہی کہہ رہے کہ یہ ہمارا بنیادی انسانی اور آئینی حق ہے جس سے چمن کے تاجروں اور عام لوگوں کو محروم رکھا جا رہا ہے۔"

صادق اچکزئی نے کہا کہ ہم نہ ریاست کے خلاف ہیں اور نہ ہی ریاست سے علیحدگی چاہتے ہیں ہمارا ایک سادہ سا مطالبہ ہے کہ ہمیں کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے۔

بلوچستان میں حالیہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی صوبائی حکومت نے تاحال چمن میں مظاہرین سے کوئی ملاقات نہیں کی اور نہ ہی نئی حکومت نے اس سلسلے میں تاحال کوئی پالیسی دی ہے۔

تاہم سابق نگراں حکومت اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد پر چمن میں 'ون ڈاکومنٹ رجیم' کا نفاذ حکومت کا اٹل فیصلہ ہے۔

پاکستان کے سابق نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہہیں کہ چمن میں پاکستان افغانستان سرحد پر آمد و رفت کو قانونی شکل دینے کے لیے 'ون ڈاکیومنٹ سسٹم' کو ہر صورت ممکن بنایا جائے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG