رسائی کے لنکس

پاکستان: تمام قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کا فیصلہ


ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش سلامتی اور امن و امان کے خطرات سے نمٹنے کا یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے مجرموں کے علاوہ دیگر مقدمات میں بھی سزائے موت پانے والوں کی سزاؤں پر عملدرآمد کرنے کے فیصلے پر مقامی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں سزائے موت کے مرتکب دہشت گردوں کی سزاؤں پر عملدرآمد پر تقریباً چھ سال سے عائد پابندی ختم کردی تھی جس کے بعد سے اب تک 24 جرم کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

وزیراعظم کے اس فیصلے کے خلاف بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

لیکن رواں ہفتے شائع شدہ اطلاعات کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے تمام صوبوں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہاں جیلوں میں بند سزائے موت کے مجرموں کی پھانسیوں کے لیے ضروری قانونی کارروائی مکمل کریں۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے اپنے ایک تازہ بیان میں اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کو درپیش سلامتی اور امن و امان کے خطرات سے نمٹنے کا یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں۔

ملک میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں اس نئے فیصلے پر تنقید کی ہے۔

بیان کے مطابق کمیشن کا خیال ہے کہ پاکستان کے قانون میں پائے جانے والے سنگین نقائص پر غور کیے بغیر پھانسیوں کا سلسلہ شروع کر کے حکام انصاف کی بجائے انتقام کا راستہ اپنا رہے ہیں اور یہ امر افسوس ناک ہے کہ پھانسیوں پر عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے دہشت گردوں کو سزا سے بچ جانے کے عوامی تاثر کو استعمال کیا جارہا ہے۔

لیکن وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان تحفظات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان کے آئین و قانون میں کوئی چیز تبدیل نہیں کی گئی اور پہلے سے موجود قوانین کے تحت ہی معطل شدہ پھانسیوں پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

انھوں نے قانونی نظام میں پائے جانے والے سُقم کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا نظام عدل ایک مضبوط عدالتی نظام ہے۔ "ایسا ہو نہیں سکتا ہے کوئی ایسا شخص جس نے کوئی جرم نہیں کیا وہ سیشن کورٹ سے ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے بھی سزا کا حقدار رہے۔"

حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کو درپیش مخصوص حالات ایسی سخت سزاؤں پر عملدرآمد کے متقاضی ہیں جب کہ پارلیمان نے آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے ملک میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی بھی منظوری دی ہے جس کے بعد ابتدائی طور پر تقریباً نو فوجی عدالتیں قائم کر کے ان میں ایک درجن کے لگ بھگ مقدمات کی سماعت شروع کر دی گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں آٹھ ہزار کے لگ بھگ ایسے مجرم قید ہیں جنہیں مختلف جرائم میں موت کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔

XS
SM
MD
LG