انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے سال 2021 میں میڈیا، سرگرم کارکنوں اور سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا، تاکہ حکومت پر ہونے والی تنقید کو روکا جا سکے۔ اسی طرح افغانستان میں، ادارے کے مطابق، خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی میں جو پیش رفت گزشتہ دو دہائیوں میں ہوئی، وہ طالبان کے آنے کے بعد رک گئی ہے۔
جمعرات کو جاری ہونے والی ’ورلڈ رپورٹ 2022’ میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی میڈیا پر دباو ڈال رکھا تھا اور اگست میں حکومت نے ایک نئی میڈیا ریگولیٹری ایجنسی کی تشکیل کے لیے بل تجویز کیا جسے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے وسیع تر اختیارات دیے گئے۔ اسی طرح، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، حکومت نے متعدد ایسے کیبل آپریٹرز اور ٹیلی ویژن چینلز کو بلاک کر دیا جنہوں نے حکومت سے متعلق تنقیدی پروگرام نشر کیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی عہدیداروں نے غیر سرکاری تنظیموں کو ہراساں کرنے اور ان کی نگرانی کے عمل میں بھی اضافہ کیا اور حزب اختلاف کے اراکین اور حامیوں کے خلاف بھی پکڑ دھکڑ جاری رکھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت خواتین اور لڑکیوں اور احمدی کمیونٹی کے خلاف تشدد کو روکنے میں بھی ناکام رہی۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا چیپٹر کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی پر پابندیوں اور صحافیوں، سرگرم کارکنوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ایک ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو سال 2022 میں ان پریکٹسز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ انسانی حقوق کی صورتحال مزید ابتری کا شکار ہو گی۔
رپورٹ میں پیمرا کے سابق چیئرمین اور صحافی ابصار عالم پر اپریل اور اسد علی طور پر دو ہزار اکیس میں نامعلوم افراد کے حملوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح معروف اینکر حامد میر کے پروگرام 'کیپیٹل ٹاک' کی معطلی کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اسد طور پر حملے کےخلاف احتجاجی ریلی سے خطاب کیا تھا اور اس کے بعد ان کا پروگرام آف ایئر کر دیا گیا تھا
خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد، جنسی زیادتی، تیزاب سے حملوں، گھریلو تشدد اور کم عمری کی زبردستی شادیوں کے واقعات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ اس ضمن میں وفاقی دارالحکومت میں نور مقدم کیس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس پر ملک بھر میں سخت ردعمل سامنے آیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احمدی مکتبہ فکر کے افراد کے خلاف تشدد اور اہانت مذیب کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی آزادیوں کے پیرائے میں انسانی حقوق کے ادارے نے اگست میں رحیم یار خان میں ایک ہندو مندر پر ہجوم کے حملے اور ایک آٹھ سالہ بچے پر اہانت مذہب کے الزام میں مقدمے کی رپورٹ کو حوالہ بنایا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اس رپورٹ پر ردعمل کے لیے وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے رابطہ کیا، لیکن دونوں حکومتی عہدیداروں کی طرف سے جواب موصول نہیں ہو سکا۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور حکومتی وزرا کا موقف رہا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے وہ، ان کے بقول، کئی مغربی ملکوں میں موجود نہیں ہے۔
حکومت کے نمائندہ وزرا اور ترجمان مذہبی رواداری کے فروغ اور اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی صورتحال کو بہتر بنانے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں اور اس ضمن میں سکھوں کے لیے مقدس مقام کرتار پور تک بھارت کے سکھوں کو رسائی دینے، رحیم یار خان میں مندر پر حملے کے ملزموں کی فوری گرفتاری اور مندر کو پہنچنے والے نقصان کے بعد اس کی فوری تزئین و آرائش کا بندوبست کرنے کا حوالہ دیتے ہیں۔
افغانستان میں انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی میں ہونے والی پیش رفت طالبان کے آنے کے بعد 'رول بیک' ہو گئی ہے: ہیومن رائٹس واچ
ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین ورلڈ رپورٹ 2022 میں افغانستان کی صورتحال کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں حکومت پر طالبان کے قبضے نے ملک میں انسانی حقوق کے بحران میں اضافہ کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذہبی عسکریت پسندوں کے گروپ نے خواتین کے حقوق کے ضمن میں ہونے والی پیش رفت اور میڈیا کی آزادی کو لپیٹ دیا ہے۔
ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا ہے کہ افغان عوام طالبان کے جبر اور بھوک کے خطرے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ حکومتیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کے اندر مصروف عمل تھیں ان کو چاہیے تھا کہ وہ انسانی امداد اور بنیادی سروسز کے لیے، بشمول صحت اور تعلیم کے، فنڈز فراہم کرتیں؛ اور طالبان کی طرف سے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے سابقہ حکومتیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ طالبان نےکہا تھا کہ وہ تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کریں گے، طالبان کی عبوری حکومت نے سلسلہ وار جو پالیسیاں اور قواعد و ضوابط بنائے ہیں وہ خواتین کے حقوق کو محدود کرتے ہیں۔ خواتین کو تعلیم اور صحت کے شعبوں کے علاوہ کسی اور شعبے میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول ملک بھر میں بند پڑے ہیں۔ طالبان کی مذہبی پولیس خواتین کو بتا رہی ہے کہ وہ مرد سرپرست کے بغیر سفر نہیں کر سکتیں۔ اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف انہی خواتین کو سواری کی سہولت دیں جنہوں نے حجاب لے رکھا ہو۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکام حکومت کے باغیوں کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر کارروائیاں کر رہے ہیں اور میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کر رہے ہیں اس طرح صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور ملک کے اندر ستر فیصد افغان ٹیلی ویژن اور دیگر خبر رساں ادارے بند ہو گئے ہیں۔
افغانستان میں میڈیا کی آزدی اور خواتین کے حقوق میں پیش رفت کا کریڈٹ افغانستان کے اندر دو دہائیوں تک بین الاقوامی موجودگی کو دیا جا رہا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو ''بے بنیاد'' قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے ردعمل میں کہا ہے کہ افغانستان کے عوام کے تمام حقوق اسلامی امارت (طالبان) کے حکومت میں آنے کے بعد محفوظ ہیں۔ ان کے بقول ایسی رپورٹیں ان بے بنیاد معلومات پر مبنی ہیں جو بعض دشمن حلقوں نے بطور پروپیگنڈہ پھیلا رکھی ہیں۔ انہوں نے کسی فریق کا نام نہیں لیا۔
طالبان راہنما نے کہا کہ وہ جلد خواتین کو اسلامی قوانین اور تعلیمات کے مطابق اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت دیں گے۔
بھارت میں صحافیوں، اداکاروں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف سیاسی محرکات پر حملے ہوئے: ہیومن رائٹس واچ
ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ 2022 میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کا بھی احاطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت نے صحافیوں، سرگرم کارکنوں، پرامن مظاہرین حتیٰ کہ شاعروں اور اداکاروں اور کاروباری شخصیات کو بھی سیاسی محرکات پر خطرات میں ڈال دیا ہے، ان کو ہراساں کیا ہے، ان کے خلاف مقدمات چلائے ہیں اور ان کے خلاف ٹیکسوں کے ضمن میں چھاپے مارے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکام نے انسانی حقوق کے گروپوں کو کام سے روکا ہے اور اس مقصد کے لیے غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق قواعد یا مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے الزام پر کارروائی کی ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق بھارت کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایسے قوانین اور ضابطے بنائے جو امتیازی تھے بالخصوص مسلمانوں سے متعلق۔ ان قواعد کی وجہ سے پولیس ان افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی جو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ اسی طرح ہندو قوم پرست گروپوں کو حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ مسلمانوں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں پر حملے کریں۔
رپورٹ میں کہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں اپریل میں کووڈ نائنٹین کی دوسری تباہ کن لہر نے ملک کے نظام صحت اور حکومت کی طرف سے مبینہ بد سلوکی کا بھانڈا پھوڑ دیا، جس کے بعد حکام نے تنقید کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا اور مبینہ طور پر عالمی وبا سے متعلق اعداد و شمار کو بھی گھٹا کر پیش کیا۔
رپورٹ میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حریت پسند راہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرنے اور راہنما کی آخری رسومات کی مناسب انداز میں ادائیگی کی اجازت نہ دینے پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ اسی طرح ان ماورائے عدالت قتل اور حراست کے واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن پر اقوام متحدہ کے حقوق کے ماہرین بھارت کی حکومت کو خط لکھ چکے ہیں۔
بھارت کی طرف سے بھی فوری طور پر اس رپورٹ پر ردعمل نہیں آیا۔ تاہم، بھارت کے حکمران اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں جہاں شہریوں کو اظہار رائے اور مذہب کی مکمل آزادی حاصل ہے۔