صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ گروپ کے مالک اور اس سے وابستہ صحافیوں پر توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کرے۔
جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی انصار عباسی نے 15 نومبر کو شائع ہونے والی خبر میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیانِ حلف سے متعلق خبر دی تھی۔
بیانِ حلفی میں رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار پر الزام لگایا تھا کہ اُنہوں نے اسلام ہائی کورٹ پر دباؤ ڈالا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت الیکشن سے قبل منظور نہ کی جائے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد اسلام اباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، دی نیوز اخبار سے وابستہ صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر عامر غوری اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان پر سات جنوری کو توہینِ عدالت کی فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینئل باسٹرڈ کا کہنا ہے کہ انصار عباسی کی خبر مفادِ عامہ کے زمرے میں آتی ہے، لہذٰا اسلام آباد ہائی کورٹ صحافیوں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کرے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے پاکستان میں نمائندہ اقبال خٹک نے بتایا کہ اس قسم کے فیصلوں سے صحافت کو نقصان پہنچے گا۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں صحافت پر پہلے سے ہی کافی قدغنیں ہیں۔
اقبال خٹک کے مطابق انصار عباسی اور عامر غوری نے کوئی توہینِ عدالت نہیں کی ہے۔
اُن کے بقول صحافی کی خبر کسی افسانے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس دستاویز کو لکھنے والا خود عدالت میں اسے تسلیم کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس قسم کے فیصلوں سے ان لوگوں کی سوچ کو تقویت ملے گی جو آزادیؐ صحافت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔
اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت عوام کو مستند معلومات جاننے کا حق ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس ضمن میں انصار عباسی نے کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے کہ انہیں سزا دی جائے۔ نہ تو صحافیوں نے اخلاقی اقدار اور صحافت کے مروجہ اصولوں کی کوئی خلاف ورزی کی ہے۔
پی ایف یو جے کی عدالت کو تعاون کی یقین دہانی
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں عدالت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا مؤقف بھی عدالت میں جمع کرایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ صحافی توہینِ عدالت کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ ان کے ہاتھ میں ایک دستاویز آئی جس کی انہوں نے تصدیق کی اور پھر اسے شائع کیا۔
شہزادہ ذوالفقار کا مزید کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں مستقبل میں صحافیوں پر مزید قدغن لگے۔
'صحافی قانون سے بالاتر نہیں'
اسلام آباد میں مقیم 'واشنگٹن پوسٹ' سے منسلک سینئر صحافی شائق حسین کا کہنا ہے کہ صحافیوں سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ صحافیوں کو بھی خبر فائل کرنے کے لیے تمام تر صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ لہذٰا صحافیوں کو صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے وقت تمام تقاضے ملحوظ خاطر رکھنے جائیں۔
'پاکستان میں صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے'
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان آزادیٔ اظہار رائے پر قدغنوں کی تردید کرتی رہی ہے۔
حال ہی میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پاکستان میں صحافت کو جتنی آزادی حاصل ہے وہ شاید ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قوانین کی کمی کے باعث صحافت میں غیر ذمے داری کا عنصر بھی موجود ہے۔