برطانیہ کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے پہلے مسلم رہنما کے طور پر حمزہ یوسف کو ا سکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک کو بحال کرنے کے لیے ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سکاٹش نیشنل پارٹی (SNP) کے نئے اور سب سے کم عمر رہنما کا،جن کی عمر 37برس ہے کہنا ہے کہ ایک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے کی بنا پر ان کے اپنے تجربے کا مطلب ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لڑیں گے جن میں ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر افرادشامل ہیں۔
گلاسگو میں پیدا ہونے والے یوسف نے،مقامی حکومت میں پہلے مسلمان کی حیثیت سے خدمات انجام دینے سے قبل جب وہ 2011 میں پہلی بار سکاٹش پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے،تو اپنا حلف انگریزی اور اردو میں اٹھایا۔
ان کے حامیوں نے ان کی تعریف ایک منجھے ہویئے کمیونیکیٹر کے طور پر کی ہے جو SNP کو ایسے میں متحد کر سکتے ہیں جب کہ پارٹی کی مرکزی پالیسی یعنی ؛آزادسکاٹ لینڈ؛ کے لیے حمایت کا حصول جمود کا شکار ہے۔
برطانیہ کی حکومت کی جانب سے نئے ریفرنڈم کی مخالفت، اور سپریم کورٹ کےفیصلے کے باوجود، یوسف نے پیر کو اپنی جیت کی تقریر میں آزادی فراہم کرنے کا عزم ظاہرکیا۔
ایک ایسے موقع پر جب ان کی اہلیہ اور والدہ نےخوشی سے بہتے ہوئے آنسو صاف کیے، انہوں نے اپنے دادا دادی کو خراج عقیدت پیش کیااور اس وقت کو یاد کیا جب وہ 1960 کی دہائی میں وہ پاکستان سے سکاٹ لینڈ آئے تھے اور اس وقت وہ بہ مشکل انگریزی بول پاتے تھے۔
انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کا پوتاایک دن اس ملک کا لیڈر بن جائے گا جسے انہوں نے اپنا وطن بنایا۔
یوسف نے کہا، ’’ہم سب کو اس حقیقت پر فخر کرنا چاہیے کہ آج ہم نے ایک واضح پیغام بھیجا ہے، کہ آپ کی جلد کا رنگ یا درحقیقت آپ کا عقیدہ اس ملک کی قیادت میں رکاوٹ نہیں ہے جسے ہم سب گھر کہتے ہیں‘‘۔
یوسف کا کہنا ہے کہ گلاسگو میں نسل پرستانہ زیادتیوں کا سامنا کرنے کے بعد، خاص طور پر امریکہ میں 9/11 کے حملوں کے بعد وہ مضبوط ہوگئے ہیں۔
انہوں نے سیاست میں اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا ’’میں نے یقینی طور پر مشکل وقت گزارا ہے‘‘۔
میں نے سوچا ہے،کیا میں اس سے زیادہ برداشت کر سکتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ آن لائن بھی بدسلوکی کی گئی اور بدقسمتی سے، کبھی کبھی آمنے سامنے بھی۔
یوسف کے پاکستانی نژاد والد نے اکاؤنٹنٹ کے طور پر گلاسگو میں ایک کامیاب کیریئر بنایا۔ ایس این پی کے نئے رہنما کی والدہ کینیا میں ایک جنوبی ایشیائی خاندان میں پیدا ہوئیں۔
یوسف نے گلاسگو کے ایک خصوصی پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔انہوں نے گلاسگو یونیورسٹی میں سیاست کی تعلیم حاصل کی۔
یوسف نے 2012 میں سکاٹ لینڈ کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی اور انصاف، ٹرانسپورٹ اور حال ہی میں صحت سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔
انہوں نے 2010 میں سابق ایس این پی کارکن گیل لیتھگو سے شادی کی، لیکن سات سال بعد ان کی طلاق ہوگئی۔
2021 میں انہوں نے اور ان کی کی دوسری بیوی نادیہ النکلہ نے ایک نرسری کے خلاف نسلی امتیاز کی قانونی شکایت کی جب ان کی بیٹی کو وہاں داخلہ دینے سے انکار کیا گیا۔
شکایت کو ایجوکیشن انسپکٹرز نے برقرار رکھا لیکن جوڑے نے اس داخلے کے خیال کو ترک کردیا، تاہم نرسری نے الزامات کی تردید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ’’ہمیشہ دوسروں کے مساوی حقوق کے لیے لڑیں گے اور اپنے عقیدے کی بنیاد پر قانون سازی نہیں کریں گے‘‘۔
انہوں نے سکاٹش اخبار دی نیشنل کو بتایا کہ’’میں بہت واضح ہوں، میں ایک ریپبلکن ہوں‘‘۔ انہوں نے اس بحث پر زور دیا کہ آیا سکاٹ لینڈ میں ایک منتخب سربراہ مملکت ہونا چاہئیے۔
اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔