خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت میں پاکستان تحریکِ انصاف کی پچھلی صوبائی حکومت کے سونامی ٹری منصوبے کے تحت لگائے گئے درختوں کو نامعلوم افراد نے آگ لگا دی ہے۔
ان درختوں کو وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان کو صاف اور سرسبز و شاداب بنانے کے پانچ سالہ منصوبے کے اعلان سے محض ایک روز قبل نذرِ آتش کیا گیا۔
لکی مروت پولیس نے متعلقہ جنگل کے چوکیدار کی رپورٹ پر واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا ہے۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی غلام اکبر مروت نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ محکمۂ جنگلات کے اہلکاروں نے اس واقعے میں 1073 درخت جلنے کا دعوٰی کیا ہے۔
ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے جنگل کو تباہ کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی پولیس حکام نے اس سلسلے میں کسی کو گرفتار کیا ہے۔
لیکن غلام اکبر مروت کے بقول چوکیدار نے چند افراد پر شبہ ظاہر کیا ہے اور پولیس اہلکار اس سلسلے میں مزید تفتیش کر رہے ہیں۔
غلام اکبر نے بتایا کہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ آگ لگانے کا مقصد بظاہر سونامی ٹری پر اُٹھنے والے اعتراضات کو چھپانے کی ایک کوشش ہوسکتا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ لکی مروت واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں اور اس میں جو بھی ملوث پایا گیا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں سونامی ٹری منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت پی ٹی آئی کے دعووں کے مطابق صوبے بھر میں ایک ارب سے زائد درخت اگائے گئے ہیں۔
لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنما اور تجزیہ کار ان دعووں سے متفق نہیں۔
لکی مروت میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1700 کنال سے زائد زمین پر سونامی ٹری منصوبے کے تحت ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد درخت اُگانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ منصوبے کے تحت صوبے بھر میں زیادہ تر درخت نجی اور زرعی زمینوں پر اگائے گئے ہیں۔
شمالی پہاڑی ضلعے سوات کے مقامی افراد نے کئی بار حکومت بالخصوص محکمۂ جنگلات سے پہاڑی، بنجر اور غیر آباد علاقوں میں درخت اُگانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن سرکاری اہلکار اور حکمران جماعت کے رہنما جنگلات اگانے کے لیے نجی اور زرعی زمینوں کو تر جیح دے رہے ہیں۔