واشنگٹن —
روس کے دارالحکومت ماسکو میں ایک نوجوان کے قتل کے نتیجے میں پھوٹنے والے نسلی فسادات کے بعد پولیس نے 1600 سے زائد تارکینِ وطن کو حراست میں لے لیا ہے۔
حکام کے مطابق روسی دارالحکومت میں نسلی منافرت کی بنیاد پر گزشتہ تین برسوں میں ہونے والی یہ سب سے بڑی گڑبڑ ہے جس پر قابو پانے کے لیے ماسکو میں پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
فسادات کا آغاز اتوار کو ماسکو کے ضلع بریولوف میں ایک 25 سالہ مقامی نوجوان کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ نوجوان کے قتل میں روس کے مسلم اکثریتی علاقے قفقاز سے تعلق رکھنے والا ایک تارکِ وطن ملوث ہے۔
نوجوان کے قتل کے خلاف اتوار کو نکلنے والے ایک جلوس کے مشتعل شرکا نے ان دکانوں، چھابڑوں اور دیگر کاروباری مراکز میں توڑ پھوڑ کی تھی جہاں بڑی تعداد میں تارکینِ وطن ملازمت کرتے ہیں۔
مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی تھیں جس کے بعد حکام نے فسادات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 380 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
ماسکو کے ڈپٹی میئر الیگزنڈر گوربینکو نے فسادات کا الزام قوم پرست عناصر پر عائد کیا ہے۔
بریولوف کے مقامی رہائشیوں نے پیر کو بھی احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکام سے علاقے میں بڑی تعداد میں مقیم تارکینِ وطن کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔
پولیس کے مطابق نوجوان کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں 10 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔
پولیس نے پیر کو اس سبزی منڈی میں کام کرنے والے 1200 سے زائد تارکِ وطن مزدوروں کو بھی گرفتار کرلیا ہے جس پر گزشتہ روز مقامی افراد نے حملہ کرکے وہاں توڑ پھوڑ کی تھی۔
حکام نے دارالحکومت کے شمال مشرقی علاقے میں قائم ایک اور سبزی منڈی سے بھی 450 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اس منڈی میں بھی کام کرنے والے بیشتر مدور تارکینِ وطن ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان تمام افراد پر کوئی الزام نہیں اور انہیں صرف یہ جانچنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے کہ آیا وہ کسی غلط کام میں ملوث تو نہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پولیس کی ان کاروائیوں کا مقصد تارکِ وطن مزدور طبقے کے بارے میں مقامی باشندوں کے بڑھتے ہوئے تحفظات دور کرنا ہے۔
حالیہ فسادات کے بعد روس میں تارکِ وطن مزدوروں کے حقو ق کے لیے سرگرم ایک تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ ماسکو میں قفقازاور وسطِ ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن پر حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
'فیڈریشن آف مائگرینٹس ان رشیا' کے مطابق قوم پرست عناصر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اس طرح کے حملوں کو ہوا دے رہے ہیں لہذا تارکینِ وطن کو چاہیے کہ وہ عوامی مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ میں محتاط رہیں۔
روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوتن کے 2000ء میں پہلی بار اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روس میں صنعتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے جس کے باعث قریبی ریاستوں سے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد – جن کی اکثریت مسلمان ہے - ماسکو اور روس کے دیگر شہروں میں آباد ہوگئی ہے۔
گوکہ ان میں سے بیشتر تارکینِ وطن مزدوری جیسے کم آمدنی والے پیشوں سے وابستہ ہیں لیکن روسی قوم پرست حلقے ان افراد کی آمد اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سماجی مسائل پر ناراضی ظاہر کرتے ہیں۔
فسادات کے حالیہ واقعات ایک ایسے وقت میں پیش آئے ہیں جب منگل کو روس کے مسلمان عیدالاضحی کا روایتی مذہبی تہوار منانے والے ہیں۔
خیال رہے کہ روس میں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں لیکن ماسکو جیسے بڑے شہر میں ان کی صرف چند مساجد ہی ہیں۔
مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر عموماً ماسکو میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے کیوں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد شہر کی چند مساجد کا رخ کرتی ہے جسے مقامی قوم پرست عناصر تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
حکام کے مطابق روسی دارالحکومت میں نسلی منافرت کی بنیاد پر گزشتہ تین برسوں میں ہونے والی یہ سب سے بڑی گڑبڑ ہے جس پر قابو پانے کے لیے ماسکو میں پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
فسادات کا آغاز اتوار کو ماسکو کے ضلع بریولوف میں ایک 25 سالہ مقامی نوجوان کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ نوجوان کے قتل میں روس کے مسلم اکثریتی علاقے قفقاز سے تعلق رکھنے والا ایک تارکِ وطن ملوث ہے۔
نوجوان کے قتل کے خلاف اتوار کو نکلنے والے ایک جلوس کے مشتعل شرکا نے ان دکانوں، چھابڑوں اور دیگر کاروباری مراکز میں توڑ پھوڑ کی تھی جہاں بڑی تعداد میں تارکینِ وطن ملازمت کرتے ہیں۔
مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی تھیں جس کے بعد حکام نے فسادات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 380 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
ماسکو کے ڈپٹی میئر الیگزنڈر گوربینکو نے فسادات کا الزام قوم پرست عناصر پر عائد کیا ہے۔
بریولوف کے مقامی رہائشیوں نے پیر کو بھی احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکام سے علاقے میں بڑی تعداد میں مقیم تارکینِ وطن کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔
پولیس کے مطابق نوجوان کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں 10 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔
پولیس نے پیر کو اس سبزی منڈی میں کام کرنے والے 1200 سے زائد تارکِ وطن مزدوروں کو بھی گرفتار کرلیا ہے جس پر گزشتہ روز مقامی افراد نے حملہ کرکے وہاں توڑ پھوڑ کی تھی۔
حکام نے دارالحکومت کے شمال مشرقی علاقے میں قائم ایک اور سبزی منڈی سے بھی 450 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اس منڈی میں بھی کام کرنے والے بیشتر مدور تارکینِ وطن ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان تمام افراد پر کوئی الزام نہیں اور انہیں صرف یہ جانچنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے کہ آیا وہ کسی غلط کام میں ملوث تو نہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پولیس کی ان کاروائیوں کا مقصد تارکِ وطن مزدور طبقے کے بارے میں مقامی باشندوں کے بڑھتے ہوئے تحفظات دور کرنا ہے۔
حالیہ فسادات کے بعد روس میں تارکِ وطن مزدوروں کے حقو ق کے لیے سرگرم ایک تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ ماسکو میں قفقازاور وسطِ ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن پر حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
'فیڈریشن آف مائگرینٹس ان رشیا' کے مطابق قوم پرست عناصر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اس طرح کے حملوں کو ہوا دے رہے ہیں لہذا تارکینِ وطن کو چاہیے کہ وہ عوامی مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ میں محتاط رہیں۔
روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوتن کے 2000ء میں پہلی بار اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روس میں صنعتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے جس کے باعث قریبی ریاستوں سے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد – جن کی اکثریت مسلمان ہے - ماسکو اور روس کے دیگر شہروں میں آباد ہوگئی ہے۔
گوکہ ان میں سے بیشتر تارکینِ وطن مزدوری جیسے کم آمدنی والے پیشوں سے وابستہ ہیں لیکن روسی قوم پرست حلقے ان افراد کی آمد اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سماجی مسائل پر ناراضی ظاہر کرتے ہیں۔
فسادات کے حالیہ واقعات ایک ایسے وقت میں پیش آئے ہیں جب منگل کو روس کے مسلمان عیدالاضحی کا روایتی مذہبی تہوار منانے والے ہیں۔
خیال رہے کہ روس میں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں لیکن ماسکو جیسے بڑے شہر میں ان کی صرف چند مساجد ہی ہیں۔
مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر عموماً ماسکو میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے کیوں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد شہر کی چند مساجد کا رخ کرتی ہے جسے مقامی قوم پرست عناصر تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔