جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے)نے ایران کے خلاف خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کے الزام میں گزشتہ 12 برسوں سے جاری تحقیقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عالمی ادارے کے 35 رکنی بورڈ نے منگل کو ہونے والے اجلاس میں ایران کے خلاف تحقیقات ختم کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔
لیکن باضابطہ تحقیقات کے خاتمے کے باوجود عالمی ادارے کے معائنہ کار ایران کی جوہری پروگرام اور تنصیبات کے جائزے کا کام بدستور انجام دیتے رہیں گے۔
'آئی اے ای اے' کے بورڈ آف گورنرز نے یہ فیصلہ ایجنسی کے سربراہ یوکیا امانو کی جانب سے رواں ماہ پیش کی جانے والی رپورٹ کے بعد کیا ہے جس میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق ایران پر عائد کیے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے نتائج بیان کیے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ ایران 2003ء تک خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوششیں کر رہا تھا لیکن اسلامی جمہوریہ کی جانب سے 2009ء کے بعد ایسی کسی سرگرمی کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
'آئی اے ای اے' کی جانب سے ایران کے خلاف گزشتہ 12 برسوں سے جاری تحقیقات کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب عالمی ایجنسی نے مغربی طاقتوں کے اس خدشے کی تصدیق کی تھی کہ ایران ماضی میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
لیکن ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان رواں سال کے وسط میں طے پانے والے معاہدے کے باعث عالمی ادارے کی اس رپورٹ پر بین الاقوامی برادری نے کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے متعلق 'آئی اے ای اے' کی حتمی رپورٹ اور پھر تحقیقات کے خاتمے کا فیصلہ بھی معاہدے کا حصہ ہے جس پر جولائی میں ایران اور امریکہ کے علاوہ برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی نے اتفاق کیا تھا۔
معاہدے کے تحت ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں بتدریج اٹھا لی جائیں گی جن کے جواب میں ایرانی حکومت اپنی جوہری سرگرمیاں اور یورینئم کی افزودگی محدود کردے گی۔
منگل کو 'آئی اے ای اے' کے بورڈ کی جانب سے منظور کی جانے والی قرارداد میں ایجنسی کے سربراہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں مستقبل میں جب بھی ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کوئی بات قابلِ تشویش لگے وہ فوراً اسے ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے علم میں لائیں۔