غیر قانونی ماہی گیری سالانہ اربوں ڈالر کی ایک عالمی صنعت ہے جس کا منظم جرائم سے قریبی تعلق ہے۔ برطانیہ کے رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایسے میں جب کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے دنیا کے سمندر گرم ہو رہے ہیں یہ غیر قانونی تجارت سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق مچھلیاں پکڑنے کی غیر قانونی، غیر رپورٹ شدہ اور غیر منظم تجارت کی مالیت سالانہ 36.4 ارب ڈالر تک ہے اور یہ عالمی سطح پر گرفت میں آنے والے 33 فیصد کیسوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس غیر قانونی شکار کی وجہ سے مقامی ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کے ذریعہ معاش پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
رائل یونائٹڈ سروس انسٹٹی ٹیوٹ کے لارن ینگ کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ان مقامی ماہی گیروں کے روزگار پر اثر پڑے گا، تو وہ بھی مچھلیاں پکڑنے کے لیے مجرمانہ طریقے اختیار کر سکتے ہیں یا دوسرے جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
ینگ کا کہنا تھا کہ منشیات، انسانی اسمگلنگ اور مزدوروں کے ساتھ زیادتیاں کرنے والے گروہوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔
بہت سے غریب ممالک کے پاس اپنے پانیوں کی نگرانی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے کچھ حصوں میں ساحلی کمیونٹیز کے ارکان کا کہنا ہے کہ چین کے جہازوں سمیت ،غیر ملکی ٹرالروں نے مچھلیوں کی آبادیوں کو تباہ کر دیا ہے۔
کیمرون کے ایک ماہی گیر الفریڈ اوجا کا کہنا تھا کہ جب چینی یہاں نہیں تھے، یعنی مچھلیاں پکڑنے والی چینی کشتیوں کے آنے سے پہلے، تو جب کوئی ماہی گیر سمندر میں جاتا تھا ، تو اسے کم از کم ایک دن کے لیے کچھ اچھا مال مل جاتا تھا ۔ لیکن آج کل ہم ماہی گیروں کے لیے یہ واقعی آسان نہیں ہے،بہت مشکل وقت ہے۔
چین اس بات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے بحری بیڑے غیر قانونی ماہی گیری کرتے ہیں۔
امریکی کوسٹ گارڈ نے 2021 میں کہا تھا کہ غیر قانونی مچھلیاں پکڑنے والے بحری جہاز ، بحری قزاقی کی جگہ عالمی بحری سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرہ بن گئے ہیں۔
برطانوی رپورٹ میں بحیرہ جنوبی چین کے گرم ہونے کی وجہ سے ماہی گیری کی جگہوں اور سمندری حدود میں پہلے ہی سخت مقابلہ ہے اور اب وہاں اکثر مسلح تصادم بھی ہونے لگا ہے ۔
لارن ینگ کا کہنا ہے کہ ’’بہت سے لوگ چین کے نائین ڈیش لائن کے وعدے کا حوالہ دیتے ہیں ، جو ایک قسم کی ملک کی خود ساختہ سمندری سرحد ہے۔ لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث وہاں پہلے سے موجود تناؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے‘‘۔
اس ماہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے سمندر سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کیا تاکہ وسیع محفوظ سمندری علاقے قائم کیے جائیں۔
لارن ینگ کہتے ہیں کہ ایسے میں جب کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے ایک مثبت اقدام ہے کہ ہم دنیا کے سمندروں کی زیادہ حفاظت کے لیے کوشاں ہیں، ہمیں ان معاہدوں کو نافذ کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کی اپنی اس صلاحیت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مصنفین نے حکومتوں اور کثیر الاقومی اداروں سے آب و ہوا کی تبدیلی کی پیشین گوئیوں کی بنیاد پر غیر قانونی ماہی گیری کی سرگرمیوں سے نمٹنے ، جہازوں سے نگرانی کی صلاحیتوں میں اضافے؛ اور وسیع تر مجرمانہ نیٹ ورکس میں غیر قانونی ماہی گیری کی صنعت کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے، قانون کے نفاذ کو سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(وی او اےنیوز)