رسائی کے لنکس

سیلاب سے متاثرہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض ملنے سے کوئی سہارا مل پائے گا؟


بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پیر کو پاکستان کو قرض پروگرام کے سلسلے میں ساتوں اور آٹھویں قسط جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پاکستان کو فنڈ سے تقریباً 1.17 ارب امریکی ڈالر قرض مل جائے گا۔

کئی معاشی تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ قرض پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے کیوں کہ ملک اس قرض کے ملنے سے درمیانی مدت میں دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بھی باہر نکل گیا ہے۔ادھر حکومتی ٹیم بھی اسے اہم کامیابی سے تعبیر کر رہی ہے۔

لیکن کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محض قرض پروگرام کی بحالی سے معیشت پر چھائے ہوئے سیاہ بادل مکمل طور پر نہیں چھٹیں گے۔ بلکہ اس کے لیے ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میکرو اکنامک استحکام کے لیے معیشت میں مزید اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے جن پر خود آئی ایم ایف نے بھی اپنی رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔

آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل بیرونی ماحول اور حکومتی معاشی پالیسیوں کے باعث کٹھن اقتصادی موڑ سے گزر رہا ہے۔ مقامی طور پر طلب بڑھنے کے باعث گزشتہ مالی سال میں پاکستان کو بڑے بجٹ خسارے اور بیرونی خساروں کا سامنا کرنا پڑا جس سے ایک جانب مہنگائی کی سطح میں زبردست اضافہ ہوا تو دوسری جانب غیر ملکی زرمبادلہ کے زخائر میں بھی تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔

تاہم فنڈ کے اس قرض پروگرام کا مقصدمقامی اور بیرونی طور پر پائے جانے والے عدم توازن سے نمٹنے، معاشی نظم و ضبط پیدا کرنے اور قرضوں کے حجم میں استحکام لانا ہے ۔


"فنڈ کی جانب سے پیسے ملنا مثبت مگر چیلنجز اور بھی بڑے ہیں"

تجزیہ کار شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے ملنے کی خبر یقینی طور پر معیشت کے لیے ایک مثبت پیش رفت تو ہے لیکن معیشت کو اب بھی کئی ہمالیائی چیلنجز کا سامنا ہے۔

اُن کے بقول برآمدات اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور حکومتی اخراجات میں کمی لاکر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنا اہم ہیں۔ اگر گزشتہ مالی سال کے اعدا و شمار پر نظر ڈالیں تو پاکستان کی برآمدات پہلی بار 31.8 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر رہیں تاہم اس کے مقابلے میں پاکستان کی درآمدات گزشتہ مالی سال میں 80 ارب ڈالر پر پہنچ گئیں۔

یوں پاکستان کو تجارتی خسارہ 48 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہا۔ اسی طرح پاکستان کے پاس اس وقت کُل ملا کر 13 ارب ڈالرز کےغیر ملکی زرمبادلہ کے زخائر ہیں جن میں سے مرکزی بینک کے پاس سات ارب ڈالر کے قریب ہیں۔

پاکستان کو جون 2023 میں ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال میں 17.4 ارب ڈالرکا خسارہ ہوا تھا جو ملکی تاریخ کا دوسرا بڑا جاری کھاتوں کا خسارہ تھا۔اسی طرح پاکستان میں گزشتہ سال محض 1.87 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی۔

ان کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال پاکستان کومعاشی استحکام کے لیے ان بنیادی معاشی اعشاریوں کوبہت بہتر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم اس میں مثبت خبر یہ ضرور ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض پروگرام بحال ہونے سے پاکستان کو رواں سال بیرونی ادائیگیوں کے لیے درکار رقم پوری ہونے کا امکان پیدا ہو گیاہے جس کے لیے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ چین سے بھی مالی مدد حاصل کی گئی ہے۔

بھارت سے تجارت، پاکستانی عوام کی مشکلات کم کر سکتی ہے، تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:35 0:00

سیلاب کی وجہ سے10 ارب ڈالر کا نقصان، معیشت کی خراب صورتحال برقرار رہنے کے خدشات

تاہم معیشت کو درپیش چیلنجز یہیں تک محدود نہیں بلکہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی زراعت پر بھی کاری ضرب لگائی ہے جس کا ملکی معیشت میں سب سے بڑا حصہ ہے۔

تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کے لیے سنگین صورتِ حال جاری رہنے کا امکان ظاہرکیا جا رہا ہے۔ حالیہ سیلاب نے نہ صرف زرعی شعبے میں تباہی مچائی بلکہ انسانی جانی نقصان کے ساتھ مویشیوں کی بھی بڑے پیمانے پر ہلاکت ہوئی جب کہ نجی اور سرکاری املاک، سڑکوں، پُلوں اور دیگر انفراسٹرکچر اور مواصلات کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے جس سے معاشی منظرنامے کے لیے شدید خطرات پیدا ہوئے ہیں۔

اُدھراقوام متحدہ نے بھی پاکستان میں بارشوں اور سیلاب سے 20 لاکھ ایکڑ فصلوں کے متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) حکام کے مطابق ملک کے 72 اضلاع کو سیلابی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ سیلاب سےملک کی 20 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی اور تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اسے تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ماہرین معیشت کے خیال میں شدید بارشوں اور سیلابی کیفیت سے پاکستان میں کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اور صوبہ سندھ میں کپاس کی 80 سے 90 فی صد فصل تباہ ہوچکی ہے۔ اس کا منفی اثر پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت پر بھی پڑے گا جو ملکی برآمدات میں 60 فی صد سے زائد کی حصہ دار ہے۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کئی سالوں بعد اضافہ دیکھا جارہا تھا اس میں رواں سال ایک بار پھر کمی آسکتی ہے۔ نہ صرف کپاس بلکہ اس کے ساتھ چاول، گنا اور دیگر فصلوں بشمول سبزیوں کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ مقامی مارکیٹوں میں اشیائے خورو نوش میں کمی اور یوں خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی ہوگا۔

ملک میں پہلے ہی جولائی کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 24.9 فی صد تک جاپہنچی ہے جس کے مزید بڑھنے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی کی شرح اوسط 19.9 فی صد رہے گی جو حکومت نے بجٹ میں 11 فی صد رکھنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔

دوسری جانب ماہرین معیشت نے خبردار کیا ہے کہ فصلوں کے ناقابلِ استعمال ہونے کے خطرے کے ساتھ مقامی زرعی پیداوار کی کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کرنے کی توقع ہے جس سے ملک کے غیر ملکی ذخائر پر مزید دباؤ بڑھے گا۔یوں مجموعی طور پر ملکی مجموعی ترقی کی شرح یعنی جی ڈی پی 3.5 فیصد کے قریب رہنے کی توقع ہے تاہم پاکستان کے موقر اے کے ڈی سیکوریٹیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی کی شرحرواں سال کے اختتام پرمحض 2.14 رہنے کی توقع ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG