بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے بجٹ خسارے کو قابلِ تشویش قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سبسڈیز کے خاتمے اور 'ٹیکس بیس' میں اضافے کے ذریعے اس پر قابو پانے کی کوشش کرے۔
عالمی ادارے نے مزید کہا ے کہ بجٹ خسارے میں کمی کے لیے پاکستانی حکومت کو ٹیکسوں کےنظام میں اصلاحات لانے اور ٹیکس پالیسی کے موثر نفاذ کے لیے کام کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ 'آئی ایم ایف' کے ڈائریکٹرز نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک اجلاس میں پاکستان کے معاشی حالات کا جائزہ لیا تھا۔ بورڈ کی جانب سے اس اجلاس کی کاروائی کی رپورٹ جمعرات کو جاری کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 'آئی ایم ایف' کے ڈائریکٹرز وقتاً فوقتاً ان ممالک کی معاشی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں جو فنڈ سے مالی اعانت وصول کر رہے ہوں یا عالمی ادارے کے مقروض ہوں۔
رپورٹ کے مطابق 'آئی ایم ایف' کے ڈائریکٹرز نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تیزی سے بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر قابو پائے۔
بورڈ کے اندازے کے مطابق پاکستان کا بجٹ خسارہ رواں مالی سال کے اختتام یعنی جون 2013ء تک کل قومی پیداوار کے ساڑھے چھ فی صد تک پہنچ جانے کی توقع ہے جو حکومت کے مقررہ کردہ 7ء4 فی صد کے ہدف سے کہیں زیادہ ہوگا۔
بورڈ کے ڈائریکٹرز نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ محصولات کی شرح میں اضافے کے لیے 'ویلیو ایڈڈ ٹیکس' کے نفاذ کے علاوہ دیگر متبادل اقدامات پر بھی غور کرے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے 2008ء میں 'آئی ایم ایف' سے تین سال کے عرصے کے دوران میں 3ء11 ارب ڈالر قرض لینے کا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن 'ویلیو ایڈڈ ٹیکس' کے نفاذ سمیت قرضے کی دیگر کڑی شرائط پوری نہ کرنے پر 2011ء میں مالی اعانت کا یہ پروگرام بیچ میں ہی ختم کردیا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان کے ذمے 'آئی ایم ایف' کے لگ بھگ 8 ارب ڈالرز واجب الادا ہیں جو اسے سود سمیت قسطوں کی صورت میں عالمی ادارے کو واپس کرنے ہیں۔
'آئی ایم ایف' کے بورڈ نے اپنی سفارشات میں پاکستان کے مرکزی بینک 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان' کو بھی مزید آزاد اور خود مختار بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو ملک میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر سے موثر طور پر نبٹ سکے۔
عالمی ادارے نے مزید کہا ے کہ بجٹ خسارے میں کمی کے لیے پاکستانی حکومت کو ٹیکسوں کےنظام میں اصلاحات لانے اور ٹیکس پالیسی کے موثر نفاذ کے لیے کام کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ 'آئی ایم ایف' کے ڈائریکٹرز نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک اجلاس میں پاکستان کے معاشی حالات کا جائزہ لیا تھا۔ بورڈ کی جانب سے اس اجلاس کی کاروائی کی رپورٹ جمعرات کو جاری کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 'آئی ایم ایف' کے ڈائریکٹرز وقتاً فوقتاً ان ممالک کی معاشی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں جو فنڈ سے مالی اعانت وصول کر رہے ہوں یا عالمی ادارے کے مقروض ہوں۔
رپورٹ کے مطابق 'آئی ایم ایف' کے ڈائریکٹرز نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تیزی سے بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر قابو پائے۔
بورڈ کے اندازے کے مطابق پاکستان کا بجٹ خسارہ رواں مالی سال کے اختتام یعنی جون 2013ء تک کل قومی پیداوار کے ساڑھے چھ فی صد تک پہنچ جانے کی توقع ہے جو حکومت کے مقررہ کردہ 7ء4 فی صد کے ہدف سے کہیں زیادہ ہوگا۔
بورڈ کے ڈائریکٹرز نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ محصولات کی شرح میں اضافے کے لیے 'ویلیو ایڈڈ ٹیکس' کے نفاذ کے علاوہ دیگر متبادل اقدامات پر بھی غور کرے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے 2008ء میں 'آئی ایم ایف' سے تین سال کے عرصے کے دوران میں 3ء11 ارب ڈالر قرض لینے کا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن 'ویلیو ایڈڈ ٹیکس' کے نفاذ سمیت قرضے کی دیگر کڑی شرائط پوری نہ کرنے پر 2011ء میں مالی اعانت کا یہ پروگرام بیچ میں ہی ختم کردیا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان کے ذمے 'آئی ایم ایف' کے لگ بھگ 8 ارب ڈالرز واجب الادا ہیں جو اسے سود سمیت قسطوں کی صورت میں عالمی ادارے کو واپس کرنے ہیں۔
'آئی ایم ایف' کے بورڈ نے اپنی سفارشات میں پاکستان کے مرکزی بینک 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان' کو بھی مزید آزاد اور خود مختار بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو ملک میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر سے موثر طور پر نبٹ سکے۔