امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے نئے افراد کی آمد پر دو ماہ کی پابندی کے صدر ٹرمپ کے اقدام پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق، صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے، کیونکہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی اقتصادی صورتحال سے نمٹنے کے تناظر میں مزید گرین کارڈ ہولڈرز کے آنے سے بے روزگاری کا بحران شدت اختیار کرے گا۔
دوسری طرف امیگریشن کے حامی کہتے ہیں کہ اس اقدام سے امریکہ کو بہت نقصان ہو سکتا ہے، کیونکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے ہنرمند امریکہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے اقدامات سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
میری لینڈ میں مقیم پاکستانی امریکی سیاسی کارکن عائشہ خان کہتی ہیں کہ اگرچہ امریکہ کو کرونا وائرس بحران کی وجہ سے ایک بڑے اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے، اس فیصلے سے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔
عائشہ خان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ''لوگ پہلے سے ہی کرونا وائرس سے بچاؤ کی پابندیوں اور مسائل سے دوچار ہیں۔ اب جبکہ رمضان کی آمد ہے تو خاندان کے افراد ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں۔ لیکن، اب نئے آنے والے مستقل رہائشی اپنے خاندانوں سے مزید 2ماہ دور رہیں گے''۔
پاکستانی امریکن بزنس مین اور سیاسی شخصیت، ساجد تارڑ، جو 'مسلمز فار امریکہ' تنظیم کے بانی ہیں، کہتے ہیں کہ امریکہ اس وقت حالیہ تاریخ کے ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ امریکی قومی سلامتی کے مفاد کا فیصلہ ہے۔
ساجد تارڑ کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہمیں اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اس وقت امریکہ میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہیں۔ اس کے مقابلے میں سن 2019 میں 459000 گرین کارڈ ہولڈرز امریکہ آئے۔ مزید یہ کہ یہ پابندی عارضی ہے اور صدر اس کا دو ماہ بعد جائزہ لیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس وقت امریکی شہریوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔ الیکشن کے سال میں یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ وہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ فیصلے کر رہے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم 'سنٹر فار امیگریشن سٹڈیز' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مارک کورین نے صدر کے فیصلے سے یوں اختلاف کیا کہ ''سب سے پہلے عارضی طور پر آنے والے ورکرز پروگرام کو روکا جانا چاہیے تھا، کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرتے ہیں۔ اور یوں، امریکی شہریوں کے روزگار کے مواقع پر اثر انداز ہوتے ہیں''۔
پاکستانی امریکی کمیونٹی کے ایک لیڈر، عمران آگرا کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے۔
نیو یارک میں مقیم، عمران آگرا نے کہا کہ ''اس وقت جب پہلے ہی اتنی بڑی تعداد میں امریکی بے روزگار ہیں، یہ فیصلہ امریکہ کے عین قومی مفاد میں ہے۔''
عمران آگرا نے کہا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ یہ فیصلہ امیگریشن یا نئے آنے والے امیگرنٹس کے خلاف ہے، بلکہ یہ امریکی عوام کی بہتری میں ہے، تاکہ انہیں جلد از جلد روزگار مل سکے۔
نیشنل امیگریشن لا سینٹر واشنگٹن سے وابستہ عدنان بخاری نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کا یہ اقدام امیگریشن کے خلاف فیصلہ ہے اور ان کی پالیسیوں کا ایک تسلسل ہے۔
بقول ان کے، کرونا وائرس کی اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کو دونوں پارٹیوں کو ساتھ ملا کر ایک ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے تھی جو ملک کو سیاسی طور پر مزید تقسیم نہ کرے۔
عدنان بخاری نے کہا کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے تارکین وطن اس وقت کرونا وائرس کے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور امریکی عوام کی بہتری کے لیے اس جدوجہد میں صف اول کے درجے کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ میں تمام لوگوں کو بلا تفریق ایک نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔