برطانوی حکومت نیا امیگریشن نظام متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی وجہ سے کم ہنر مند محنت کشوں کو مستقبل میں مشکل سے ویزا ملے گا۔ برطانوی کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ نئے نظام کے سبب انھیں افرادی قوت میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آجروں نے حکومت کے سامنے مستقبل کی تصویر کھینچی ہے کہ کم ہنر مند افراد کی کمی کے بعد کھیتوں میں سبزیاں پھل سڑ جائیں گے، خوراک منڈی تک پہنچانے والے نہیں ہوں گے اور بزرگ اور معذور افراد دیکھ بھال سے محروم ہوجائیں گے۔
لیکن، وزیراعظم بورس جانسن حکومت اپنے فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے یا مقامی افراد کو روزگار دیا جائے۔ آجروں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ مقامی کارکن یورپی محنت کشوں کی طرح کم معاوضے پر کام نہیں کرتے۔ آٹومیشن ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ لیکن، اس کی دستیابی دنوں کا نہیں، برسوں میں ممکن ہوتی ہے۔
برطانیہ میں نئے امیگریشن نظام کی ضرورت یورپی یونین سے اس کے اخراج کی وجہ سے پیش آئی ہے۔ برطانیہ یورپی یونین کا 47 سال حصہ رہا اور اس دوران تنظیم کے رکن ملکوں کے شہریوں کو یہاں رہنے اور کام کرنے کی اجازت تھی۔ یورپی یونین کے 30 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ وہ یہاں 31 دسمبر تک رہ سکتے ہیں۔ لیکن، اس کے بعد ان کے لیے اور غیر یورپی افراد کے لیے امیگریشن کی شرائط ایک جیسی ہوں گی۔
ان شرائط میں انگریزی روانی سے بولنے کی صلاحیت اور 25600 پاؤنڈ سالانہ تنخواہ والی ملازمت کی پیشکش ہونا ضروری ہے۔ بعض شرائط نرم کی جاسکتی ہیں جن میں کام کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے والوں کو بھی سہولت مل سکتی ہے۔
2004 سے اب تک دس لاکھ یورپی شہریوں کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نئے قوانین لاگو ہوتے تو ان میں سے سات لاکھ برطانیہ نہیں آسکتے تھے۔
اس وقت برطانیہ میں ہر سال دو لاکھ افراد امیگریشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ حکومت اس تعداد کو کم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ نئے قوانین نافذ ہونے کے بعد ایسا ہوسکے گا یا نہیں۔
حکومت کو اپنے ارادے کے مطابق، امیگریشن قانون ابھی تشکیل دینا ہے۔ لیکن، اسے منظور کرانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی، کیونکہ دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو نمایاں اکثریت ملی تھی۔