پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت کی جامع تحقیقات ہونی چاہیے۔اُن کا کہنا تھا کہ بار بار ادارے پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جھوٹے الزامات کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔
منگل کو نجی ٹی وی چینل '24 نیوز' سے گفتگو میں لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہےکہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ارشد شریف کی موت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت سے درخواست کی ہے کہ اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی جائیں۔ارشد شریف پروفیشنل صحافی تھے۔ تحقیقات اس بات کی بھی ہونی چاہیے کہ ارشد شریف کو بیرونِ ملک کیوں جانا پڑا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقات کی جائیں تاکہ تمام چیزوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ وزیرِ اعظم پاکستان نے بھی اس معاملے پر کینیا کے صدر سے رابطہ کیا ہے۔
'ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی'
اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نےدعوی کیا تھا کہ ارشد شریف کی 'ٹارگٹ کلنگ' کی گئی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے بارے میں ساری قوم جانتی ہے کہ وہ محب وطن صحافتی تھے اور ہمیشہ فوج کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب میں سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ صحافت میں کسی کی سب سے زیادہ عزت کرتے تھے تو وہ ارشد شریف تھے۔وہ پاکستان کا درد سب سے زیادہ رکھتے تھے۔ ان کے ضمیر کی کوئی قیمت نہیں تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ارشد شریف نے کسی مافیا کو نہیں بخشا تھا اور ان دو خاندانوں کو بار بار بے نقاب کیا جنہوں نے پاکستان کی دولت لوٹی ہے۔
عمران خان کے مطابق ارشد شریف اُن پر بھی تنقید کرتے تھے۔ لیکن وہ ہمیشہ ثبوت کے ساتھ بات کرتے تھے۔ اس لیے ان کو دھمکیاں ملتی تھیں لیکن نہ ان کو کوئی خرید سکتا تھا اور نہ ہی کوئی ان کو ڈرا سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کو نامعلوم نمبروں سے دھمکیاں ملیں اور ان کو کہا گیا کہ اپنے تجزیوں میں سچ نہ بولو۔ ان کے بقول ملک میں جو حکومت تبدیل ہوئی اس کے بارے میں وہ حقائق سامنے لانے لگے تو انہیں دھمکیاں ملیں۔ ارشد شریف کو ڈرایا گیا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ "مجھے معلومات ملیں کہ ارشد شریف کو مارنے لگے ہیں۔"
سابق وزیرِ اعظم نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کو کب اور کس نے یہ معلومات دیں۔
واضح رہے کہ ارشد شریف اتوار کی شب کینیا کی ایک ہائی وے پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس نے ارشد شریف کی ہلاکت سے متعلق ایک بیان میں کہا تھا کہ ارشد شریف کی ہلاکت شناخت میں غلطی کی وجہ سے ہوئی ہے۔
ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے کینیا کی" انڈپینڈینٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی" (آئی پی او اے) نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ارشد شریف کو کہا کہ پاکستان سے باہر چلے جاؤ۔ جب وہ پہلی بار نہیں مانے تو ان کو ایک بار پھر بیرونِ ملک جانے کے لیے کہا۔پھر ارشد شریف کو بتایا کہ ان کے حوالے سے معلومات موجود ہیں۔
ارشد شریف کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جب ملک چھوڑ کر گئے۔ ان کا دبئی کا ویزا ختم ہو رہا تھا تو ان کو واپس پاکستان بلایا جا رہا تھا۔ ان کو اس لیے واپس نہیں بلایا جا رہا تھا کہ انہوں کوئی جرم کیا تھا بلکہ اس لیے واپس بلایا جا رہا تھا کہ وہ سچ نہ بولیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ارشد شریف کو واپس بلا کر ان کے ساتھ بھی وہی کرنا تھا جو کہ اعظم سواتی کے ساتھ کیا گیا۔ اعظم سواتی کو بند کمرے میں ننگا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ شہباز گل کے ساتھ یہی رویہ رکھا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستانی صحافی ارشد شریف کی کینیا میں پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد نہ صرف اس واقعے سے متعلق شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ مقامی پولیس کی ماورائے عدالت قتل کی کارروائیاں بھی زیرِ بحث ہیں۔
پولیس نے ابتدائی طور پر مؤقف اختیار کیا تھا کہ نیروبی میں بچے کے اغوا کے بعد پولیس نے "مگادی ہائے وے" پر ناکہ بندی کی ہوئی تھی اور ارشد شریف کی گاڑی ناکے پر نہیں رکی جس کا تعاقب کیا گیا اور شناخت میں غلطی کی وجہ سے گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔
بعد ازاں نیشنل پولیس سروس کینیا نے اس واقعے کے بارے میں جو بیان جاری کیا اس میں بچے کے اغوا کا ذکر نہیں ہے بلکہ پولیس کی ناکہ بندی کا سبب چوری شدہ گاڑی کی تلاش بتایا گیا ہے۔
پولیس کے بیان میں تضادات اور ماضی میں کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات کے باعث اس واقعے سے متعلق بھی کئی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کینیا میں صحافی ارشد شریف کی موت کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو وزیرِ اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہائی کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔