کراچی کے ایک شہری سلمان احمد نے جب رواں سال مارچ میں سوزوکی کمپنی کی فروری میں متعارف کردہ کار سوئفٹ بک کرائی، تو انہیں کمپنی پالیسی کے تحت کار کی پوری رقم بطور ایڈوانس جمع کرانا پڑی اور انہیں ڈیلر کی جانب سے بتایا گیا کہ انہیں یہ کار جون کے دوسرے ہفتے میں مل جائے گی۔
جون شروع ہونے سے قبل سلمان احمد کو آگاہ کیا گیا کہ ان کی کار ڈیلیوری کا دورانیہ مزید تین ماہ کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کی پریشانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اب انہیں کار کی طے شدہ قیمت سے کہیں زیادہ رقم بھی ادا کرنا پڑی۔
کار کمپنی نے تین ماہ کا اضافی وقت گزرنے پر ان کو مزید ایک ماہ انتظار کرنے کے لیے کہا۔ یوں چار ماہ کی تاخیر کے ساتھ انہیں اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں اضافی رقم کی ادائیگی کے بعد گاڑی مل سکی۔
پاکستان میں یہ معاملہ صرف ایک دو شہریوں کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہزاروں ایسے خریدار ہیں، جو ایڈوانس رقم ادا کر کے بھی مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیاں حاصل کرنے کے لیے ایک سال سے دھکے کھا رہے ہیں۔
دو سو ارب روپے ایڈوانس ادائیگی
یہ معاملہ اب پاکستان کے ایوانِ زیریں تک پہنچ چکا ہے البتہ شہریوں کی پریشانی کم نہیں ہو سکی ہے۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ رواں برس جون تک 200 ارب روپے سے زائد کی ایڈوانس رقم حاصل کرنے کے باوجود بھی ملک میں کاریں تیار کرنے والی تین بڑی کمپنیاں صارفین کو بروقت گاڑیاں فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ جو کمپنیاں صارفین کو گاڑیاں طے شدہ وقت میں فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں، ان میں انڈس موٹرز، ہونڈا اور پاک سوزوکی شامل ہیں۔
وزارت صنعت و پیداوار نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ کار اسمبلرز، گاڑیوں کی بکنگ شروع کرنے پر 20 فی صد سے 100 فی صد تک ایڈوانس رقم وصول کرتے ہیں اور گاڑی کی ڈیلیوری کے وقت اگر اس کی مالیت بڑھ جائے تو صارفین کی جانب سے انہیں مزید رقم بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
کارساز کمپنیوں کی ناکامی
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ مقامی کار ساز ادارے مراعات اور انڈسٹری کو حاصل تحفظ کے باوجود بھی صارفین سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے صارفین، جنہوں نے گاڑیوں کی 100 فی صد ادائیگی کی ہے انہیں بغیر کسی مزید تاخیر کے ایک ماہ میں گاڑیاں فراہم کی جائیں ۔
بک شدہ گاڑیوں کی ڈیلیوری بروقت کرنے میں ناکامی کی صورت میں حکومت کو سفارش کی گئی کہ وہ 800 سے 1300 سی سی گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس کی شرح کم کر دے تاکہ اس انڈسٹری میں کچھ مسابقت پیدا کی جا سکے۔
پاکستان میں آٹو انڈسٹری کو قریب سے جاننے والے بہت سے افراد ایڈوانس بکنگ کے باوجود گاڑیاں دیر سے فراہم کرنے اور ڈیلیوری کے وقت گاڑیوں کی قیمت میں مزید اضافہ کرنے کو صارفین کے لیے ایک غیر منصفانہ عمل قرار دیتے ہیں اور اسے ملک کے آٹو سیکٹر میں بڑے کھلاڑیوں کی اجارہ داری سے تعبیر کرتے ہیں۔
'کار اسمبلرز کی اجارہ داری پر حکومت خاموش تماشائی'
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ یہ ملک میں کار اسمبلرز کی کھلی اجارہ داری کے مترادف ہے ۔ اس پر حکومت ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاراسمبلرز ، کار مینوفیکچرر کا درجہ حاصل کر کے مراعات حاصل کر رہے ہیں اور انتہائی ہوشیاری سے اپنی صنعت کو گزشتہ کئی دہائیوں سے بھر پور تحفظ دیے ہوئے ہیں۔ حکومت جب بھی کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پہلے اس میں یہ انتہائی بااثر لوگ رکاوٹ بنتے ہیں۔ معاملات کو لٹکانے کے لیے فعال ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے بعد بھی در آمد شدہ گاڑیوں پر اس قدر ڈیوٹیز لگا دی جاتی ہیں کہ درآمد شدہ کاریں، جو مقامی طور پر تیار گاڑیوں سے کم قیمت ہوتی ہیں، ان کی قیمت ملک میں پہنچنے پر کئی گنا بڑھ جاتی ہیں جب کہ وہ کوالٹی میں ملک کے اندر تیار ہونے والی کاروں سے کئی درجے بہتر اور پائیدار ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آٹو سیکٹر کئی دہائیوں سے سبسڈی حاصل کر کے بھرپور منافع کما رہا ہے۔ دوسری جانب ملک کی برآمدات میں آج تک اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
درمد شدہ گاڑیوں پر 494 فی صد اضافی ٹیکس
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیوں کے مقابلے میں مکمل طور پر تیار درآمد شدہ گاڑیوں پر 494 فی صد زیادہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ درآمد شدہ تیار گاڑیوں پر کسٹمز ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوتی ہیں۔ ان تمام ڈیوٹٰیز کے شامل ہونے پر گاڑی کی کل قیمت پر 17 فی صد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) اور تین فی صد ایڈیشنل سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے۔
ان ٹیکسوں کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس پر صارفین کو انکم ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے، یوں 660 سی سی کی چھوٹی گاڑی 230 فی صد مہنگی ہو جاتی ہے جب کہ 1000سی سی کی گاڑی 250 فی صد اور 2500 سی سی کی گاڑی 494 فی صد مہنگی ہوتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہواہے جب کہ مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے مقامی گاڑیوں کی فروخت میں ایک ماہ کے دوران سات فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
استعداد سے کم گاڑیوں کی تیاری
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ستمبر میں گاڑیوں کی فروخت میں حالیہ کمی 27 ماہ کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی ،جب پورے ماہ میں 10 ہزار 953 یونٹس فروخت ہوئے۔ اس کے مقابلے میں رواں سال اگست میں 11 ہزار 666 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔
گزشتہ سال کے ستمبر میں پاکستان میں تیار ہونے والی 22 ہزار 241 کاریں فروخت ہوئی تھیں۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں نے گزشتہ سال پانچ لاکھ کاریں تیار کرنے کی استعداد ہونے کے باوجود بھی صرف تین لاکھ 30 ہزار کاریں تیار کیں۔
بعض ناقدین کے مطابق کمپنیوں کی جانب سے استعداد سے کم گاڑیاں تیار کرنے سے طلب اور رسد کا فرق بڑھا ، یوں صارفین کو بک شدہ گاڑیاں حاصل کرنے کے لیے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔
آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ طلب کے باوجود فروخت میں کمی کی بنیادی وجہ گاڑیوں کی تیاری میں تاخیر ہے کیوں کہ گاڑیوں کے پرزہ جات بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) بر وقت نہ کھولنے سے بیرونِ ملک سے پرزہ جات منگوانے کے لیے رقم جاری ہونے میں تاخیر ہوئی۔ یوں ملک میں گاڑیاں تیار کرنے میں بھی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جب کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایل سی کھلنے میں تاخیر کی وجہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے خطرناک حد تک کم ہوتے ہوئے ذخائر کو قرار دیا جاتا ہے۔
ڈلیور ی میں تاخیر ، مہنگائی وجہ قرار
آٹو انڈسٹری کے ماہر مشہود خان کہتے ہیں کہ ایڈوانس رقم حاصل کرکے گاڑی بر وقت نہ دینے کی صورت میں کار ساز کمپنیاں ادا شدہ رقم سود کے ساتھ ادائیگی کی پابند ہیں جب کہ گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے اور بالخصوص ڈلیوری کے وقت قیمتیں مزید بڑھنے کا براہِ راست تعلق ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہے ،جس میں حالیہ عرصے میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ان کے مطابق امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے باہر سے منگوائے گئے پارٹس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے، جس سے کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کی پیداواری قیمت بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب متوسط طبقے کی پہنچ سے نئی گاڑی کی خریداری بھی دور ہوتی جا رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ آٹو سیکٹر میں پاکستان میں 40 برس سے کارخانے قائم ہونے کے باوجود بھی 100 فی صد مقامی طور پر پرزوں سے تیار شدہ گاڑی تیار نہیں ہوسکی اور نہ ہی اس ضمن میں ہائی ٹیک ٹیکنالوجی حاصل کی جاسکی۔
انہوں نے بتایا کہ 1980 کی دہائی میں خلیل الرحمٰن مرحوم نے 1000سی سی کی پروفیشنٹ پِک اپ نامی مقامی طور پر تیار شدہ پہلی گاڑی متعارف کرائی تھی البتہ اس وقت کی بیوروکریسی اس میں رکاوٹ بنی اور اس پورے پروجیکٹ کو ناکام بنا دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح سال 2005 میں آدم موٹرز کمپنی نے پاکستان میں مقامی طور پر تیار شدہ آدم ریوو کار متعارف کرائی لیکن حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر جاپانی گاڑیوں سے نسبتاََ سستی ہونے کے باوجود بھی یہ منصوبہ نہ چل سکا۔
مقامی کمپنیاں گاڑیوں کی برآمد میں ناکامی
مشہود خان کے مطابق تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں جاپانی گاڑیاں مکمل طور پر مقامی سطح پر تیار ہوتی ہیں اور پھر آسیان ممالک میں برآمد کرکے یہ ممالک بھاری زرِ مبادلہ بھی کمارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب پاکستان میں حکومت کی جانب سے اب تک تین آٹو پالیسیز جاری ہوچکی ہیں اور تینوں میں ایک بھی ایسا نکتہ شامل نہیں کیا گیا، جس میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ کم از کم ایک ایک ایسا برانڈ بھی تیار کریں، جسے وہ بیرون ملک ایکسپورٹ کرکے ملک کے لیے زرِ مبادلہ کمانے کا باعث بھی بن سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت آٹو سیکٹر میں درآمد پر مبنی پالیسی کے بجائے برآمدات پر مبنی پالیسی نہیں اپناتی، مکمل طور پر مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری ایک خواب ہی رہے گا اور ملک میں انجینئرنگ انڈسٹری ترقی نہیں کر پائے گی جبکہ ہم بیرون ملک گاڑیاں یا ان کے پارٹس درآمد کرنے پر مجبور رہیں گے جو قیمتی زرِ مبادلہ سے خریدی جاتی ہیں۔