پاکستان میں آٹھ فروری کے انتخابات میں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں وہیں ان الیکشن کو بین الاقوامی میڈیا میں بھی بھرپور کوریج ملی۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے اس کا انتخابی نشان 'بلا' واپس لے لیا گیا تھا۔
پولنگ سے پہلے پی ٹی آئی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا چرچا بین الاقوامی میڈیا میں بھی جاری رہا تھا اور انتخابی مہم اور پولنگ کے دن گنتی کا عمل مکمل ہونے تک پی ٹی آئی کو درپیش چیلنجز کا تذکرہ بھی میڈیا میں ہوا تھا۔
اپریل 2022 میں پارلیمنٹ سے ایک کامیاب عدم اعتماد کی صورت میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد سے عام انتخابات تک ملک کی سیاسی صورتِ حال میں کافی ہلچل رہی اور عالمی میڈیا کی جانب سے عمران خان کی کوریج تواتر سے جاری رہی۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات سے متعلق نیو یارک ٹائمز، بلوم برگ، بی بی سی، دی انڈپینڈنٹ، دی گارڈین، اسکائی نیوز، ٹائم میگزین، انڈیا ٹوڈے، فنانشل ٹائمز، سی بی سی نیوز، دی پرنٹ اور دیگر کئی بین الاقوامی میڈیا اداروں نے کوریج کی اور انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے بارے میں رپورٹ کیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں اور کئی شہروں میں احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی جانب سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جانے کے باوجود پاکستانی حکام اور الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات شفاف انداز میں منعقد کیے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے کچھ تجزیہ کاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات اور پاکستان کی سیاست کے بارے میں عالمی میڈیا میں جس طرح لکھا گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا عمران خان کی شخصیت کی وجہ سے یہ سب رپورٹ ہو رہا ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟
تجزیہ کار اور سینئر صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ عمران خان مغربی دنیا کے لیے ایک ہائی پروفائل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کے خیال میں مغربی میڈیا میں پاکستان کے انتخابات کے بارے میں جو کچھ لکھا یا کہا جا رہا ہے، اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی شکایات کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔
ان کے بقول بین الاقوامی میڈیا اور مبصرین کے لیے یہ حیران کن تھا کہ تمام تر صورتِ حال کے باوجود عمران خان کی جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں نے پاکستان کی قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل کی ہے۔
زاہد حسین کے بقول جب پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاءالحق کے طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 1988 میں وطن واپس آئی تھیں تو اس وقت بھی عالمی میڈیا میں نمایاں کوریج ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سے ہٹایا تھا تو اس کی بھی عالمی میڈیا میں کوریج ہوئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ 2018 اور 2024 کے انتخابات کے ماحول میں فرق ہے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا جب کہ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف انتخابات لڑنے کی اجازت تھی بلکہ ان کی جماعت نے انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔
لیکن دوسری جانب ان کے بقول عمران خان کو نہ صرف انتخابات کے لیے نا اہل قرار دیا گیا بلکہ عمران خان سمیت کئی دیگر رہنما انتخابات کے دوران جل میں بند رہے اور جماعت کو کھل کر انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے باوجود ان کی جماعت اقتدار میں رہی لیکن عمران خان کے معاملے میں صورتِ حال مختلف تھی۔
واضح رہے کہ 2018 کے انتخابات سے قبل سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا۔ لیکن مبصرین کے مطابق اس وقت عالمی میڈیا کی طرف سے انہیں اتنی کوریج نہیں ملی تھی جتنی عمران خان اور ان کی جماعت کو مل رہی ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل عمران خان کو تین مختلف مقدمات میں قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جب کہ الیکشن کمیشن سے انٹرا پارٹی انتخابات کو بنیاد بناتے ہوئے پی ٹی آئی سے 'بلے' کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا جب کہ ان کی جماعت انتخابات سے متعلق لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی۔
پاکستان کے انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کو یکساں مواقع نہ ملنے پر اقوامِ متحدہ بلکہ کئی دیگر ممالک نے بھی تنقید کی تھی۔
کمیونٹی ڈویلپمنٹ سے متعلق غیر سرکاری تنظیم 'پتن' کے سربراہ سرور باری کہتے ہیں عالمی میڈیا میں پاکستان کے انتخابات کی کوریج کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک خوف کی فضا کے باوجود لوگوں نے بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دیا ہے اور ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہتی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سرور باری کا کہنا تھا کہ انتخابات سے پہلے کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں اور نشان نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا ہے۔ انتخاب سے پہلے ایک خیال یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی پارٹی ختم ہو گئی ہے اور اس کی قیادت جیل میں ہے لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ حیران کن ہیں۔
سرور باری کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان میں جن وزرائے اعظم کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا ان کے برعکس عمران خان نے مزاحمت دکھائی ہے اور سیاست میں جو لوگ طاقت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ان کے بقول پی ٹی آئی کو جو ووٹ ملا ہے وہ ہمدردی کا نہیں بلکہ مزاحمت کا ووٹ ہے۔
سرور باری سمجھتے ہیں اس وقت پوری دنیا میں ڈیموکریسی انڈیکس یعنی جمہوریت کا معیار کم ہو رہا ہے۔ ان کے بقول دنیا کے کئی ممالک بشمول بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جمہوری معیار میں ہونے والی کمی کے بارے میں حساسیت بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سب میں عمران خان کا فیکٹر بھی شامل ہے کیوں کہ گزشتہ دو برسوں سے جو ہو رہا ہے اس پر پی ٹی آئی کے بیرونِ ملک مقیم افراد نے آواز بلند کی ہے۔
فورم