رسائی کے لنکس

بھارت میں کسان ایک بار پھر سڑکوں پر کیوں ہیں؟


بھارت کی پولیس نے نئی دہلی کی طرف مارچ کرنے والے سینکڑوں کسانوں اور ان کے حامیوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے۔ تاہم کسانوں کا یہ احتجاج جاری ہے۔

پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے کسانوں کا مختلف مطالبات کے ساتھ 'دلی چلو مارچ' جاری ہے۔ انتظامیہ نے کسانوں کو دہلی میں داخلے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں پر رکاوٹیں لگا دی ہیں۔

نئی دہلی کی طرف مارچ کرنے والے کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں فصلوں کی بہتر قیمت ادا کی جائے۔

کسانوں کے احتجاج کا یہ سلسلہ ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب کچھ ماہ بعد ہی بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں اور وزیرِ اعظم نریندر کا تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کا امکان ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کسانوں کے ساتھ کسی بڑے تصادم سے بچنا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ مودی حکومت کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ کسانوں کے 2020 جیسے احتجاج کا راستہ روکے، جب یہ احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا۔

واضح رہے کہ 2021-2020 میں بھی کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں طویل احتجاج کرتے ہوئے بعض قوانین منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

کسان اب احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

بھارت کی حکومت ہر سال 20 فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (مینیمم اسپورٹ پرائس) مقرر کرتی ہے۔ تاہم حکومتی ادارے ان میں سے صرف چاول اور گندم طے کردہ امدادی قیمت پر کسانوں سے حاصل کرتے ہیں۔ لہذٰا اس سے صرف سات فی صد کسان ہی فائدہ اُٹھا پاتے ہیں۔

حکومتی ادارے چاول اور گندم کی بڑی مقدار فوڈ ویلفیئر پروگرام کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت لگ بھگ 80 کروڑ افراد کو اس پروگرام کی مد میں مفت چاول اور گندم فراہم کرتی ہے۔

یہ پروگرام دنیا کا سب سے بڑا ویلفیئر پروگرام سمجھا جاتا ہے جس کے لیے حکومت سالانہ 24 ارب ڈالر سے زائد کی سبسڈی دیتی ہے۔

بھارتی حکومت نے 2021 میں کسانوں کے احتجاج کے بعد متنازع زرعی قوانین منسوخ کرتے ہوئے کاشت کاروں اور حکومتی اہلکاروں کی ایک کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ گندم اور چاول کے ساتھ ساتھ دیگر فصلوں کے لیے حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی امدادی قیمت کو یقینی بنائے۔

کسانوں کا یہ الزام ہے کہ اس سارے معاملے میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جس سے کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

پالیسی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ تمام زرعی پیداوار کو ریاست کی مقرر کردہ کم از کم امدادی قیمت پر خریدنا قابلِ عمل نہیں ہے۔

کسانوں کے دیگر مطالبات

احتجاج کرنے والے کسان یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی آمدنی کو دگنا کرنے کا وعدہ پورا کرے۔

کسانوں کی شکایت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں کاشت کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ آمدنی کم ہو گئی جس سے کاشت کاری خسارے کا شعبہ بن رہا ہے۔

خیال رہے کہ 2016 میں مودی کی حکومت نے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کا مقصد 2022 تک کسانوں کی آمدنی دگنی کرنا تھا۔

کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت ان کی پیداوار کی مجموعی لاگت پر کم از کم 50 فی صد منافع کو یقینی بنائے۔

ان کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت اس وفاقی وزیر کے خلاف کارروائی کرے جن کے بیٹے کو 2021 کے احتجاج کے دوران چار احتجاجی کسانوں کو ہلاک کرکے فرار ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق مظاہرین کو راضی کرنے کے حکومت انہیں 2024 کے لیے کم از کم امدادی قیمت سے زیادہ بونس فراہم کرنے پر راضی ہو سکتی ہے۔ حکومت نے اس سال گندم کے لیے کم از کم امدادی قیمت دو ہزار 275 روپے فی 100 کلو مقرر کی ہے جو 2023 کے مقابلے میں سات فی صد زیادہ ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG