سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ برس اُن کی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر عائد کرنے اور پھر حالیہ عرصے میں واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بیانیے کے بعد امریکی قانون سازوں کے ساتھ اُن کے رابطوں میں تیزی آئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک ماہ کے دوران چار امریکی قانون سازوں نے عمران خان سے رابطہ کیا ہے۔
ان رابطوں میں تیزی ایسے وقت میں آئی ہے جب پاکستان میں حکمراں اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) پاکستان تحریکِ انصاف پر یہ الزام عائد کر رہا ہے کہ امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمے دار سمجھنے والے عمران خان اب امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔
امریکی کانگریس کے رُکن بریڈ شرمین نے وائس آف امریکہ کی صبا شاہ خان سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے اُن سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کہا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف نہیں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر عائد کیا تھا، حالاں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ کیوں کہ کانگریس کی مختلف سماعتوں کے دوران بھی ایسا کوئی شائبہ نہیں ملا کہ امریکہ نے اس حوالے سے کوئی کردار ادا کیا تھا۔
تحریکِ انصاف کا مؤقف ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ، کانگریس اور میڈیا تک صرف یہ بات پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل فوری طور پر آزاد اور منصفانہ انتخابات میں ہے۔
حالیہ دنوں میں یہ خبریں زور پکڑ رہی ہیں کہ تحریک انصاف امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کر رہی ہے اور اس مد میں لاکھوں ڈالرز خرچ کیے جا رہے ہیں۔
'امریکہ سے رابطوں کا مقصد عمران خان کو اقتدار میں لانا نہیں ہے'
پی ٹی آئی امریکہ کے ترجمان سجاد برکی امریکی حکام، قانون سازوں اور میڈیا کے ساتھ رابطوں کی تصدیق کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارے رابطے اس لیے نہیں ہیں کہ امریکہ عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لائے، ہمارا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور ملک شفاف انتخابات کی طرف جائے۔"
سجاد برکی کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک برس قبل یہ کاوشیں شروع کی تھیں کیوں کہ ایسا لگ رہا تھا کہ امریکی انتظامیہ بھی اچانک پاکستان میں 'رجیم چینج' بیانیے پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ لہذٰا یہ کوشش شروع ہوئی کہ امریکی قانون سازوں کو پاکستان کے حالات سے درست آگاہی دی جائے۔
سجاد برکی کہتے ہیں کہ پاکستان کی امریکہ کے حوالے سے پالیسی جو بھی ہو ایک چیز طے ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں اثرورسوخ تھا اور وہ رہے گا۔
اُن کے بقول جب بائیڈن انتظامیہ آئی تو ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کچھ سرد مہری ہے جس کا سبب بہت سی غلط فہمیاں بھی تھیں جو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے پیدا کی تھیں۔
حال ہی میں وائس آف امریکہ کی سارہ زمان کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے مبینہ طور پر امریکہ کو یہ باور کرایا تھا کہ عمران خان امریکہ مخالف ہیں۔
عمران خان نے اسی انٹرویو میں امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ اس انٹرویو کو پاکستان میں حکمراں جماعت نے عمران خان کا 'یو ٹرن' قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ایک برس سے جاری سیاسی عدم استحکام کے دوران امریکی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا بلکہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی پر زور دیتا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے امریکہ پر لگائے جانے والے الزامات کی بھی تردید کی تھی۔
'ہمیں 25 کروڑ پاکستانیوں کی فکر ہے'
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے مقامی رہنما ڈاکٹر آصف محمود بھی جاوید برکی جیسے خیالات رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کو ساری فکر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود کے بقول کیوں کہ عمران خان کی پاکستان میں مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُنہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور درجنوں مقدمات کرائے گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے امریکہ میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا اور امریکی قانون سازوں کے عمران خان کے ساتھ رابطے کرائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ماہ کے دوران چار ڈیمو کریٹس اراکینِ کانگریس سے رابطے کیے تھے۔ ان میں بریڈ شرمین، مائیک لیون، ٹیڈ لیو اور ایرک سوالویل بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں کہ ان چاروں اراکینِ کانگریس سے عمران خان کے رابطے انہی کے ذریعے ہوئے۔
اُن کے بقول یہ تمام اراکینِ کانگریس انسانی حقوق اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کرتے ہیں اور امریکہ میں اچھی ساکھ کے حامل ہیں۔ ان سے روابط کا مقصد عمران خان کو حوصلہ دینا تھا کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کی فکر ہے۔
اس سوال پر کہ کیا ان اراکینِ کانگریس کے عمران خان سے رابطے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہیں؟ ڈاکٹر آصف محمود کا کہنا تھا کہ امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کرتا ہے، لہذٰا جہاں بھی جمہوریت خطرے میں ہوتی ہے۔ امریکہ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ جمہوریت کی مضبوطی کی وکالت کرتا ہے۔
'کسی لابنگ فرم کا حصہ نہیں ہوں'
ڈاکٹر آصف محمود کا کہنا تھا کہ جب بھی امریکی قانون ساز بات کرتے ہیں تو دنیا سنتی ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کو بیجا گرفتار نہ کیا جائے، جیلوں میں نہ ڈالا جائے، بلکہ ملک میں شفاف انتخابات کرائے جائیں اور جو بھی جیتے وہ حکومت کرے۔
ڈاکٹر آصف محمود نے کہا کہ اُن کا تعلق کسی بھی لابنگ فرم سے نہیں بلکہ وہ صرف اپنے طور پر پاکستان کے بہترین مفاد میں کام کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی تعلقات ہیں۔ لہذٰا یہ کہنا کہ میں کسی لابنگ فرم کا حصہ ہوں، یہ درست نہیں ہے۔
سجاد برکی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے گزشتہ برس ایک وفد کے ہمراہ عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرتے ہیں جس پر سالانہ 10 لاکھ ڈالرز لاگت آئے گی۔ تاہم عمران خان نے منع کر دیا اور کہا کہ اگر آپ خود ایسا کر سکتے ہیں تو کر لیں۔
سجاد برکی کے بقول اُنہوں نے امریکہ میں مقیم دیگر پاکستانیوں کے ساتھ مل کر لابنگ فرم ہائر کی تاکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوں، تاہم اس مد میں حکومتِ پاکستان نے کوئی پیسہ نہیں دیا تھا۔
اس سے قبل افغانستان میں امریکہ کے سابق ایلچی زلمے خلیل زاد کی عمران خان کی حمایت میں ٹوئٹس بھی سامنے آئی تھیں۔
زلمے خلیل زاد نے اپنی مختلف ٹوئٹس میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ ان کے بقول اپنی' تباہ کن' روش کو تبدیل کریں۔
اُنہوں نے 14 مارچ کو ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو پاکستان میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حکومت کو جون میں ملک بھر میں انتخابات کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔
پاکستان کی دفترِ خارجہ کی ترجمان نے خلیل زاد کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ پاکستان کے باہر سے آنے والی کوئی بھی آواز یا بیان پاکستان کی جمہوری سیاست اور عوام کو متاثر نہیں کر سکتی۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی زلمے خلیل زاد کی ٹوئٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
'الیکشن امریکہ نے کرانے ہیں یا اس کی تاریخ دینی ہے؟'
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابات امریکہ نے کرانے ہیں اور نہ ہی اس کی تاریخ دینی ہے۔
ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کا 'اوئے امریکہ' سے 'ہائے امریکہ' اور 'کیا ہم غلام ہیں' سے 'ہاں ہم غلام' تک کا سفر جھوٹے بیانیے کا قبرستان بن چکا ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان نے گزشتہ برس تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمے کی ذمے داری امریکہ پر عائد کی تھی۔ سابق وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ امریکی حکام نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفیر کو تنبیہ کی تھی کہ اگر عمران خان کو نہ ہٹایا گیا تو پھر پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی۔
عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران مبینہ طور پر ایک سائفر بھی لہرایا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ امریکہ نے اُن کی حکومت گرانے کے لیے پاکستانی سیاست دانوں کو استعمال کیا اور اس ضمن میں رقم بھی خرچ کی گئی ۔
عمران خان نے اس کے بعد کئی ماہ تک یہی بیانیہ دہرایا تھا، تاہم حالیہ عرصے میں اپنے اس مؤقف میں تبدیلی لاتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
واشنگٹن نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کے الزامات کو متعدد بارمسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا تھا۔