رسائی کے لنکس

طالبان کو افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت کے لیے کہوں گا: عمران خان


وزیرِ اعظم عمران خان واشنگٹن میں یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں گفتگو کرتے ہوئے۔ 23 جولائی 2019
وزیرِ اعظم عمران خان واشنگٹن میں یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں گفتگو کرتے ہوئے۔ 23 جولائی 2019

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اب وہ پاکستان واپس جا کر طالبان کی قیادت سے ملاقات کریں گے اور ان پر زور دیں گے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت سے براہ راست بات چیت شروع کریں۔

واشنگٹن کے ایک معروف تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ شروع سے یہ کہتے آئے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اس کے لیے واحد راستہ پر امن بات چیت ہی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر نے بھی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ افغانستان کی جنگ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدہ کر کے ختم کی جائے، یہ مقصد حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے اور پاکستان اس میں مکمل مدد فراہم کرے گا۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لیے افغانستان میں امن و استحکام انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان کا امن پورے خطے کے مفاد میں ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان اور امریکہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ ہیں اور اس سلسلے ان کے اور امریکی صدر ٹرمپ کے خیالات میں ہم آہنگی ہے۔

عمران خان نے یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں اپنی گفتگو میں بتایا کہ جب انہیں صدر ٹرمپ کی طرف سے ملاقات کی دعوت دی گئی تو مختلف حلقوں کی طرف سے انہیں بہت سے مشورے دیے گئے کہ امریکی صدر سے کیا بات چیت کی جائے۔ تاہم یہ بات چیت انتہائی خوشگوار اور حیرت انگیز ثابت ہوئی۔

انہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کی کیفیت رہی ہے اور باوجود اس کے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا، امریکہ سمجھتا رہا ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میں کافی کوششیں نہیں کی ہیں اور وہ امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کر رہا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اب پاکستان اور امریکہ ایک صفحے پر ہیں۔

عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں تین بار مارشل لا لگا۔ تیسرا مارشل لا جنرل مشرف کا تھا۔ جب ملک میں خراب جمہوریت ہو تو فوجی حکومت اس کا علاج نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بڑی بیماری کا علاج درد کم کرنے والی گولیوں سے کیا جائے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت طویل عرصے تک جاری رہنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں جمہوریت کو فروغ دیا ہے۔

عمران خان نے پاکستان میں میڈیا پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا انتہائی آزاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میڈیا کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو اس نے ان کی ذات پر حملے شروع کر دیے جو غیر مناسب بات ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کے بعض ادارے منفی صحافت کو فروغ دے رہے تھے۔

پی ٹی ایم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے خود 2004 میں قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن نہیں کیا جانا چاہئیے۔ اس آپریشن کے دوران قبائلیوں نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل پشتون نوجوانوں کی طرف سے تحریک کا آغاز ہوا اور وہ جو کہہ رہے تھے وہ بالکل درست تھا۔ فوجی آپریشن کے خلاف غم و غصے کی حالت میں اس تحریک نے جنم لیا۔

عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت نے قبائلی علاقوں میں ترقی کے لیے بہت بڑے پیمانے پر منصوبے شروع کیے۔ تاہم جب پی ٹی ایم نے فوج پر حملے شروع کیے تو اس سے حالات خراب ہوئے ہیں۔

حافظ سعید سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ہم وہاں کسی بھی قسم کی مسلح ملیشیا کی اجازت نہ دیں۔ لہذا حکومت نے ایسی تنظیموں کو غیر مسلح کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فوج نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ان مسلح تنظیموں کو غیر مسلح کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اب پہلی بار نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ہو رہا ہے، کیونکہ پہلے کی حکومتوں میں ایسا کرنے کی خواہش نہیں تھی۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو امداد کی ضرورت نہیں کیونکہ ماضی میں پاکستان امداد پر انحصار کرتا رہا ہے جو شرمناک ہے۔ اب پاکستان امریکہ سے ایسے تعلقات چاہتا ہے جو برابری، دوستی اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوں۔

XS
SM
MD
LG