لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم عمران کے خلاف دائر مختلف مقدمات میں اُن کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم کے خلاف لاہور میں درج مقدمات میں 10 روز جب کہ اسلام آباد کے مقدمات میں 24 مارچ تک کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی گئی ہے۔
عمران خان نے اپنے خلاف دائر نو مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔ ان نو مقدمات میں سے آٹھ میں عمران خان پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
عدالت نے پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی ہلاکت کیس میں بھی سابق وزیرِ اعظم کی ضمانت منظور کر لی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو ساڑھے پانچ بجے تک عدالت پہنچنے کی ہدایت کی تھی، عمران خان کارکنوں کے ہمراہ قافلے کی صورت میں لاہور ہائی کورٹ پہنچے۔
عمران خان نے عدالت میں درخواست دی ہے کہ اُنہیں اُن کے خلاف دائر دیگر مقدمات کی بھی تفصیل فراہم کی جائے تاکہ وہ ان میں ضمانت کی بھی درخواست دائر کر سکیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے پنجاب حکومت سے صوبے میں عمران خان کے خلاف درج دیگر مقدمات کی بھی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
'وارنٹ گرفتاری ہو تو پھر تعمیل ہونی چاہیے'
دورانِ سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری کے لیے سمن بھیجے گئے، لیکن تعمیل نہیں ہوئی۔ تاثر جاتا ہے کہ ریاست کی رٹ نہیں ہے، ایسا دوبارہ نہ ہو۔
اس پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اُنہیں یہ پتا تھا کہ 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہونا ہے، لیکن یہ اتنی بڑی فورس کے ساتھ آ گئے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ ہماری تو پارٹی کے نام میں ہی انصاف ہے لیکن ہمارے کارکنوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔
عمران خان نے کہا کہ اُنہیں خدشہ تھا کہ یہ لوگ انہیں اسلام آباد کے بجائے کوئٹہ لے جائیں گے۔رانا ثناء اللہ کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں، اُن کا کیا بنا؟ اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ معاملہ اُن کے سامنے آیا تو پھر دیکھیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت
دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو 18 مارچ تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔جمعرات کو سیشن عدالت نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دیے تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عمران خان عدالتی اوقات کار میں ہی ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس کے نتائج ہوں گے اور توہینِ عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
عدالت نے جمعے کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مقامی انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس کو سیکیورٹی انتظامات کرنے کا بھی حکم دیا۔
سابق وزیرِ اعظم نے اپنی رہائش گاہ پر پولیس آپریشن رکوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا جب کہ ان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے جمعے کی سہ پہر تین بجے تک عمران خان کی گرفتاری کے لیے کسی بھی قسم کے آپریشن سے پولیس کو روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے بیانِ حلفی دے رکھا ہے کہ وہ 18 مارچ کو توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔
توشہ خانہ کیس میں عدم پیشی پر اسلام آباد کی سیشن عدالت کے جج ظفر اقبال نے سابق وزیرِ اعظم کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
عدالتی احکامات کے بعد منگل اور بدھ کو پولیس کی جانب سے کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود سابق وزیرِ اعظم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ برس اکتوبر میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو آئین کے آرٹیکل تریسٹھ ون (پی) اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 137، 167 اور 173 کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا۔
عمران خان پر یہ الزام تھا کہ اُنہوں نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کا اپنے گوشواروں میں ذکر نہیں کیا تھا۔ لہذٰا وہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے سابق وزیرِ اعظم کے خلاف فوج داری کارروائی شروع کرنے کا بھی حکم دیا تھا جس کے تحت اب عمران خان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔