امریکہ کے معروف تھنک ٹینک یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا پروگرام کے شریک نائب صدر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ اور صدر ٹرمپ سے ملاقات محض برف پگھلانے کے لیے ہی تھا اور اس حوالے سے یہ دورہ توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو دونوں ملکوں کی بیوروکریسی نے یرغمال بنایا ہوا تھا اور مختلف حلقوں میں اس پریشانی کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ بیوروکریسی کی سطح پر بداعتمادی جس انداز میں بڑھ چکی ہے اسے کیسے دور کیا جائے۔ لہذا دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں اس برف کو پگھلانے کے لیے خود کچھ کرنا ہے اور تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ دورے کا عمومی تاثر تو سب کو بہت اچھا دکھائی دیا۔ لیکن اس سے دونوں ملکوں کو حقیقی معنوں میں کیا حاصل ہوا۔
معید یوسف کا کہنا ہے کہ اس دورے اور سربراہ ملاقات کا محور افغانستان میں امن بات چیت کی پیش رفت ہے اور عمران خان نے بھی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں وعدہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مزید جو بھی کر سکے ضرور کریں گے اور صدر ٹرمپ کی بھی یہ خواہش ہے کہ افغان امن بات چیت اگلے دو چار ماہ میں ان کی صدارتی انتخاب کی مہم سے قبل اپنے حتمی انجام تک پہنچ جائے۔ اس حوالے سے پاکستان اور امریکہ ایک صفحے پر دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم تجارت اور عسکری تعلقات کی بحالی سمیت دیگر معاملات میں پیش رفت آئندہ سامنے آنے والے اقدامات سے ہی واضح ہو گی۔
باسٹن ہونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے حلقے عمران خان کے دورے کی آپٹکس یعنی عمومی تاثر کی بات کرتے ہیں۔ تاہم ان کے نزدیک اس دورے اور سربراہ ملاقات میں یہ آپٹکس ہی سب سے اہم ہیں جنہوں نے بہت مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔
عادل نجم کا کہنا تھا کہ یہ دورہ عمران خان کے لیے انتہائی کامیاب رہا تاہم صدر ٹرمپ کے لیے زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا کیونکہ وہ نسل پرستی کے الزامات اور سابق سپیشل کونسل رابرٹ ملر کی رپورٹ کے حوالے سے پیدا ہونے والی پیچیدہ صورت حال میں الجھے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ انہوں نے پریس کے سامنے جو بات چیت کی، ان سے زیادہ سوالات انہی معاملات کے بارے میں کیے گئے۔
یونیورسٹی آف ایلینوئے کے پروفیسر امیریٹس اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں جنوبی ایشیا پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر مارون وائن بام نے بھی وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان یہ تو کر سکتا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئے اور اس نے یہ کر دیا۔ تاہم عمران خان نے اس دورے میں کہا ہے کہ وہ امن بات چیت کو کامیاب بنانے کے لیے مزید جو کچھ بھی کر سکیں گے وہ کریں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان سے کوئی ایسی بات نہیں منوائی جا سکتی جو وہ کرنے کے لیے رضی نہ ہوں۔
ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ طالبان نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ موجودہ حالات میں جو کچھ وہ لڑائی کے ذریعے حاصل نہیں کر پا رہے، وہ امن بات چیت کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا مقصد ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے اور انہیں وہاں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے کھلا میدان حاصل ہو جائے جہاں وہ جموری حکومت کے بجائے ایک اسلامی سلطنت کی طرز کا نظام قائم کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے بیتاب ہے۔ لہذا امکان یہی ہے کہ اس بارے میں پاکستان کی مدد سے امریکہ اور طالبان میں کوئی سمجھوتا ہو جائے گا۔
ڈاکٹر وائن بام کا کہنا ہے کہ عمران خان صدر ٹرمپ سے ایک ذاتی تعلق قائم کرنے کے لیے واشنگٹن آئے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال بھی عمران خان کو واشنگٹن کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے معذرت کر لی تھی کیونکہ عمران خان کا خیال تھا کہ انہیں برسراقتدار آئے ابھی کم ہی عرصہ ہوا تھا اور ملاقات سے قبل صدر ٹرمپ کی شخصیت کو گہرائی میں سمجھنے کے لیے انہیں کچھ وقت لینا چاہئیے۔ اب صدر ٹرمپ نے انہیں دوبارہ دعوت دی تو وہ اس کے لیے تیار تھے۔ ڈاکٹر وائن بام کا کہنا ہے کہ عمران خان کی یہ حکمت عملی بہت اچھی تھی۔ یوں ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات اور امریکہ کا دورہ بہت کامیاب رہے۔
ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت کی خواہش تھی کہ امریکہ پاکستان دفاعی تعاون بحال ہو۔ اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے منگل کے روز پینٹاگان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع رچرڈ سپینسر، چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ اور امریکی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل مارک میلے سے ملاقاتیں کیں۔ ڈاکٹر وائن بام کا کہنا ہے کہ اس ملاقاتوں کے نتیجے میں توقع ہے کہ دفاعی تعلقات بھی بحال ہوں گے۔