رسائی کے لنکس

عمران خان اور مولانا سمیع الحق کا ممکنہ اتحاد اور سوال


پاکستان کی ایک مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق گروپ) اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابی اتحاد پر بات چیت ہو رہی ہے اور اس بارے میں دونوں جماعتوں کے درمیان تفصیلات طے ہونا باقی ہے۔

دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کی یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی جب اس سے لگ بھگ ایک ہفتہ قبل ہی ملک کی بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سابقہ اتحاد متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر اصولی اتفاق ہوا تھا۔

2002 میں بننے والے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل ’ایم ایم اے‘ میں جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق گروپ) بھی شامل تھا۔

عمران خان کی جماعت تحریک انصاف اور مولانا سمیع الحق کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (س) میں اس ممکنہ اتحاد کے بارے تجزیہ کار اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بظاہر یہ اتحاد دونوں ہی جماعتوں کے لیے موزوں ہے۔

’’انتخابی اتحاد جو ہوتے ہیں وہ ضرورتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور دونوں کی ضرورتیں کتنی پوری ہو رہی ہیں وہ اصل میں بنیاد بنتا ہے۔۔۔ باقی باتیں ڈیکوریشن کے لیے کی جاتی ہیں۔‘‘

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس ممکنہ انتخابی اتحاد سے دونوں ہی جماعتوں کے اپنے اپنے مفاد وابستہ ہیں۔

’’میرے خیال میں (اتحاد) فطری اس لحاظ سے ہے کہ دونوں کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں مولانا سمیع الحق صاحب جو ہیں ان کو اپنے مدرسے کے لیے مستقل ایک سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ پی ٹی آئی کی حکومت ان کو مہیا کرتی رہی ہے ۔۔۔ (سمیع الحق) کی خواہش ہو گی کہ ان کے کچھ لوگ یا وہ خود سینیٹ میں یا قومی اسمبلی میں جائیں تو پی ٹی آئی کی حمایت ان کی اس خواہش کی تکمیل کا سبب بھی بن سکتی ہے اور عمران خان صاحب کے خیال میں ایم ایم اے کے بننے کی وجہ سے جو چیلنج درپیش ہو گا اس کو سمیع الحق کے ساتھ اتحاد کے ذریعے بیلنس کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘

تجزیہ کار خادم حسین کہتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان نظریاتی اتفاق تو نظر آتا ہے لیکن اُن کے بقول مل کر انتخابی مہم چلانا مشکل ہو گا۔

’’تحریک انصاف کے جو حامی ہیں وہ عموماً اپنی انفرادیت کے حوالے سے لبرل نظر آتے ہیں لیکن خیال اور تفکر کے حوالے سے وہ رجت پسند تفکرات رکھتے ہیں یا ایسے خیالات رکھتے ہیں جو دراصل انتہا پسند مکتب فکر کے زیادہ قریب ہیں۔ اس وجہ سے مجھے لگتا ہے نظریاتی طور پر تو یہ ایک صفحے پر ہیں، میرا خیال ہے کہ اتحاد کرنے کا امکان تو ہے لیکن ایک ساتھ مہم چلانے میں بہت ساری مشکلات پیش آئیں گی۔‘‘

ان حالات میں کیا متحدہ مجلس عمل بحال ہو سکے گی، اس بارے میں احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’’ان حالات میں مولانا سمیع الحق تو شاید ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن باقی پارٹیاں یا ان میں اکثر پارٹیاں غالباً ایم ایم اے کا حصہ بننا پسند کریں گی چونکہ ان کو آئندہ آنے والے انتخابات میں اس سے تقویت حاصل ہو گی اور ان کے ووٹ تقسیم ہونے سے بچ جائیں گے خاص طور پر خیبر پختونخوا میں اور اگر کراچی میں ایم کیو ایم بحران کا شکار ہوتی ہے پھر وہاں بھی ایم ایم اے کچھ سیٹیں نکال سکے گی۔‘‘

پاکستان کی چھ بڑی مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ یعنی ایم ایم اے کی مکمل بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ اگرچہ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں نے اتحاد کی بحالی پر اصولی اتفاق کیا تھا لیکن اس کے خدوخال اور اسے حتمی شکل دینے پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور اس بارے میں فیصلہ دسمبر کے وسط میں متوقع ہے۔ سیاسی اختلافات کے باعث تقریباً 10 سال قبل یہ اتحاد ختم کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG