پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے کچھ گروپوں کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف ہے، جو ملک میں دہشت گرد حملے کرنے والے کالعدم عسکریت پسند گروپوں کا اتحاد ہے۔
عمران خان نے ترک سرکاری نشریاتی ادارے، ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں اور پڑوسی ملک کے نئے طالبان حکمران اس عمل میں مدد کر رہے ہیں۔
جمعہ کو ترک نیٹ ورک کو انٹرویو کے ایک حصے میں خان نے کہا، "پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی میں مختلف گروپ ہیں۔ ہم ان میں سے کچھ کے ساتھ مفاہمتی عمل پر بات چیت کر رہے ہیں۔"
عمران خان کا مکمل انٹرویو ہفتہ کو نشر کیا جائے گا۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی گروپوں کے ساتھ بات چیت کا مقصد عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے پر راضی کرنا ہے اور پھر ہم انہیں معافی دے دیں گے، تاکہ وہ ایک عام شہری کے طور پر اپنی زندگی گزار سکیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا افغان طالبان اس عمل میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں تو عمران خان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے جواب ہاں میں ہے کیونکہ مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے جب اس سلسلے میں ردعمل جاننے کے لیے کابل میں برسر اقتدار طالبان کے ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم، اس وقت تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وزیر اعظم خان نے کہا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ مذاکرات سے مطلوبہ نتائج نکلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں عسکریت پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کا کوئی فوجی طریقہ نہیں ہے اور "سیاسی بات چیت ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے"۔ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی معاہدے یا نتیجے تک نہ بھی پہنچ سکیں لیکن ہم بات چیت کر رہے ہیں۔
پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا یہ انکشاف عمران خان نے ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور دیگر اہداف کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کالعدم گروپ کے رہنما اور کمانڈر ان حملوں کے لیے افغانستان میں موجود پناہ گاہیں استعمال کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور امریکہ دونوں ہی تحریک طالبان پاکستان کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔
افغان طالبان پر امریکہ اور دیگر ممالک کا دباؤ ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کو حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکیں۔
پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ روایتی طور پر قریبی تعلقات سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کو اپنی سرگرمیاں روکنے میں اسلام آباد کی مدد کریں گے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان کے درمیان نظریاتی قربتیں ہیں جس کی وجہ سے یہ توقعات غلط ثابت ہو سکتی ہیں۔
اسلام آباد میں ایک اعلیٰ عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل، ان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ نے تین رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی جسے تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو پاکستان کے خلاف تشدد روکنے اور سرحد پار اپنے گھروں میں امن سے رہنے کے لیے قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
تاہم، طالبان نے اس طرح کے کسی کمشن کے قیام کی تصدیق نہیں کی ہے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کے حملے جاری ہیں۔