پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے بیرونِ ملک مقیم شہری ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کرونا وائرس کے دوران اقتصادی مسائل سے دو چار پاکستان کے سمندر پار مقیم شہریوں نے گزشتہ مالی سال کے دوران 29 ارب ڈالر بھیجے جو کہ یہ ریکارڈ ترسیلاتِ زر ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام کا سبب بھی رہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ دوسری جانب بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو سہولیات فراہم کرنے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے خاصی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔
کرونا وائرس کے دوران جہاں بیرونِ ملک آمد و رفت کے سلسلے کبھی محدود اور کبھی منقطع ہوئے ایسے میں بیرونِ ملک مقیم ہزاروں پاکستانی ملک نہیں آ سکے۔ وہیں اوورسیز پاکستانیوں کی شکایت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے کام کرنے والے ادارے ’پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن‘ کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے شکایات میں اضافہ ہوا ہے اور ایک سال کے دوران 6000 سے زائد درخواستیں نمٹائی گئیں جن میں سے زیادہ تر درخواستیں جائیدادوں پر قبضے سے متعلق تھیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات میں اضافہ کیوں ہوا؟
یوسف سرور میر انگلینڈ میں کئی برس سے مقیم ہیں۔ البتہ وہ اِن دنوں پاکستان میں سرکاری دفاتر اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
یوسف سرور میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے خاندان نے لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں ایک مکان کرائے پر دیا تھا۔ ایک سال بعد جب وہ وطن واپس آئے تو کرائے دار نے مکان خالی کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے تحت انہوں نے کرائے دار کے تمام کوائف اور دستاویزات کا پولیس اسٹیشن میں اندراج کرایا تھا۔
یوسف سرور میر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لینڈ مافیا بہت فعال اور حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے گروہ متحرک ہیں جو کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جمع پونجی کھا جاتے ہیں۔
اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ وزارتِ سمندر پار پاکستانی امور سے رابطہ کر چکے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے سٹیزن پورٹل پر بھی شکایت کا اندراج کرا چکے ہیں۔ البتہ معاملہ جوں کا توں ہے۔ تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہیں سمندر پار پاکستانیوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان بھی کہتے آئے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی اُن کے دل کے بہت قریب ہیں۔ البتہ بعض بیرونِ ملک مقیم شہری حکومت کے اقدامات کو ان دعوؤں کے مقابلے میں انتہائی کم قرار دیتے ہیں۔
وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اوورسیز کمیشن کے ضلعی چیئرمین عاطف افتخار چیمہ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی 99 فی صد شکایات زمین پر قبضے سے متعلق ہوتی ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن 2014 سے کام کر رہا ہے کہ اس کمیشن کی بنیاد مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شامل گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے رکھی تھی جو خود بھی اوورسیز پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مسائل کو سمجھتے تھے۔
کمیشن کی کارکردگی اور اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے جون 2021 تک سات برس کے دوران 23 ہزار 800 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 14 ہزار 755 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ جب کہ لگ بھگ نو ہزار شکایات ابھی کمیشن کے پاس موجود ہیں یا عدالت میں ہونے یا دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر معاملہ زیرِ التوا ہے۔
اوورسیز کمیشن کے ضلعی چیئرمین عاطف افتخار چیمہ کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانی مکان اور جائیداد کے معاملات میں اپنے اہلِ خانہ یا قریبی دوستوں پر اعتماد کرتے ہیں اور وہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے۔
اُن کے مطابق اکثر کیسز قریبی رشتے دار جیسے بھائی ہی دعویدار بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔
عاطف افتخار چیمہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات گھروں کے اندر ہی سے ہوتے ہیں۔ ایک اوورسیز پاکستانی جو کہ ملک سے باہر تھا۔ اس نے پلاٹ کے لیے پیسے بھیجے لیکن گھر کا فرد ہی پیسے ہڑپ کر گیا۔
پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ درخواستوں کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹا رہے ہیں۔
اوورسیز کمیشن کیسے کام کرتا ہے؟
پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد ملازمت کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم ہیں۔
پنجاب کے 36 اضلاع میں ہر ضلع اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر اوورسیز کمیٹی بنائی گئی ہے اور مقامی سطح کے افراد کو ہی ضلعی چیئرمین بنایا گیا ہے۔
بیرونِ ملک مقیم کسی پاکستانی کی جائیداد پر اگر قبضہ ہوتا ہے تو اسے سب سے پہلے آن لائن پورٹل پر رابطہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اور بیرون ملک مقیم شہری opc.punjab.gov.pk پر اپنی درخواست رجسٹر کرا سکتے ہیں جب کہ وہ اپنی ملکیت سے متعلق دستاویزات بھی اس پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ مختلف مراحل پر مبنی درخواست جمع ہونے کے بعد شکایت کمیشن کے ہیڈ کوارٹرز میں براہِ راست موصول ہو جائے گی۔
کسی بھی اوورسیز پاکستانی کی زمین پر قبضے کی شکایت موصول ہونے کے بعد کمیشن سب سے پہلے محکمۂ مال سے رپورٹ لیتا ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اس اراضی یا مکان کا مالک کون ہے۔
کمیشن ہر ماہ میں دو بار ہونے والے اجلاس میں شکایات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد محکمۂ مال سے ملنے والی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے اور اگر کورٹ آرڈر یا کوئی اور قانونی رکاوٹ نہ ہو تو پولیس کی مدد سے فوری جگہ وا گزار کرائی جاتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں ایک سال کے دوران 13 ارب سے زائد مالیت کی جائیداد وا گزار کرائی جا چکی ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی جائیداد آسان ہدف کیوں؟
گزشتہ دو دہائیوں سے جائیداد کے مقدمات لڑنے والے وکیل منظور قادر بھنڈر کے مطابق ملک میں منظم قبضہ گروہ ہیں جنہیں با اثر افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات تو ایسے افراد کی سیاسی وابستگیاں بھی ہوتی ہیں۔
اُن کے مطابق جائیدادوں پر قبضوں کے واقعات میں قریبی رشتے داروں کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اور محکمۂ مال کے افراد بھی اُن کی معاونت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زمینوں پر قبضے کے لیے جعل سازی سے نقلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں اور زمینوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ اوورسیز پاکستانی ملک سے باہر اس ساری صورتِ حال سے لا علم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کوئی عام شہری نقلی کاغذات پر جائیداد خرید لیتا ہے اور پھر دونوں ایسے افراد آپس میں قانونی معاملات میں الجھ جاتے جنییں قبضہ گروہ نے دھوکا دیا ہوتا ہے۔
منظور قادر بھنڈر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زمینوں پر قبضے کے قانون کو سخت کرنے اور سزائیں بڑھانے کی ضرورت ہے کیوں کہ قانون میں قبضہ گروہوں کی سزا بہت معمولی ہے۔
اُن کے مطابق مقدمات میں ملزمان کی ضمانتیں اور لمبی قانونی لڑائی کی فائدہ بھی ان ہی گروہوں کو ہوتا ہے۔
اوورسیز پاکستانی یوسف سرور میر کا کہنا ہے کہ محنت سے کمائے ہوئے پیسے سے گھر بنایا اور اب وہ ایک ذہنی دباؤ اور تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے علاوہ بھی سیکڑوں پاکستانی ایسے ہی دربدر ہو رہے ہیں۔ کچھ تو بیوہ خواتین ہیں وہ نہ کسی سے لڑ سکتی ہیں نہ ہی قبضہ کرنے والوں کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہیں۔
یوسف سرور میر کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی سے نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قابضین کو سخت سزائیں ملنی چاہیئں کیوں کہ لینڈ مافیا کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کی املاک اُن کے لیے آسان ترین ہدف ہیں۔