بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے اہل خانہ اور ان کے وکیل کو تحفظ فراہم کرے۔ وہ یہ بھی بتائے کہ کیا اس معاملے کو سماعت کے لیے چنڈی گڑھ کی عدالت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
بچی کے والد نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ چونکہ اس معاملے میں شدید رد عمل کا اندیشہ ہے اور ان کے اہل خانہ کو خطرات لاحق ہیں اس لیے اس معاملے کو چنڈی گڑھ کی عدالت میں منتقل کر دیا جائے۔
آٹھ سالہ آصفہ کو جنوری میں اغوا کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ایک ہفتے تک اجتماعی جنسی زیادتی کرنے کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ پر پورے ملک میں مظاہرے کیے گئے جن میں مجرموں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اس معاملے کی سماعت پیر کے روز شروع ہوئی۔ اس کیس میں آٹھ افراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ جن میں دو پولیس افسران، ایک سابق ریونیو افسر اور ایک نابالغ لڑکا بھی ہے۔ عدالت عظمی نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ 27 اپریل کو جواب داخل کرے۔
دریں اثنا متاثرہ خاندان کی وکیل دیپکا سنگھ راجاوت نے کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں ہندو مخالف قرار دے کر ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہو سکتی ہے یا وہ ماری جا سکتی ہیں یا پھر انھیں عدالت میں پریکٹس کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
اس کیس میں تمام ملزم ہندو ہیں۔ کٹھوعہ کی ہندو آبادی اور وکلا ہندو ایکتا منچ نامی ایک تنظیم کے تحت ملزموں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ بہت سے وکلا نے پولیس کو چارج شیٹ داخل کرنے سے گھنٹوں روکے رکھا تھا۔ جس پر سپریم کورٹ نے بار کونسل آف انڈیا کو ہدایت دی تھی کہ ایسے وکلا کے خلاف کارروائی کی جائے۔