رسائی کے لنکس

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ریل اور سڑک رابطہ بحال کرنے پر غور


بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش کے دوران دونوں ملکوں نے عید کے بعد سڑک اور ریل رابطوں کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جمعرات کو بنگلہ دیش اور جمعے کو بھوٹان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے ڈھاکہ میں بنگلہ یش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب اے کے عبد المومن سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

بعدازاں ایک پریس کانفرنس میں بھارتی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت عید الفطر کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ریل اور سڑک کے رابطوں کو بحال کرنے پر غور کر رہا ہے۔ کرونا وبا کی وجہ سے یہ رابطے منقطع ہو گئے تھے۔

بھارتی وزیرِ خارجہ نے شیخ حسینہ واجد کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے دورے کی دعوت بھی دی۔ تاہم ابھی اس دورے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ جولائی میں بھارت کا دورہ کر سکتی ہیں۔

بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے ترجمان احسان الکریم نے ڈھاکہ میں خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ شیخ حسینہ نے تبادلۂ خیال کے دوران دونوں ملکوں میں رابطے کی اہمیت بتائی اور بحری راستے سے چٹا گانگ اور بھارت کی ریاستوں آسام اور تری پورہ کے درمیان رابطے کی پیشکش بھی کی۔

مبصرین کے مطابق ایس جے شنکر نے اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب اے کے عبد المومن کو دورۂ بھارت کی دعوت دے رکھی تھی اور پروٹوکول کے مطابق انہیں بھارت آنا تھا لیکن اس سے قبل ہی جے شنکر کو ڈھاکہ جانا پڑا۔

'بھارت یوکرین بحران پر ہمسایہ ملکوں کی حمایت چاہتا ہے'

سینئر تجزیہ کار گوتم لاہری کہتے ہیں کہ پروٹوکول کو نظرانداز کرکے جے شنکر کے ڈھاکہ جانے کے دو اسباب تھے۔ ایک باہمی ایشوز پر تبادلہ خیال کرنا اور دوسرا یوکرین کے معاملے پر بات چیت کرنا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گوتم لاہری کا کہنا تھا کہ بھارت چاہتا ہے کہ یوکرین کے سلسلے میں اس کا جو غیر جانبدارانہ مؤقف ہے اس سے پڑوسی ملک بھی اتفاق کریں۔ لہٰذا بنگلہ دیش کو اعتماد میں لینے کے لیے جے شنکر کو وہاں جانا پڑا۔

گوتم لاہری کے مطابق ڈھاکہ سے بھوٹان جانے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہو سکتی ہے تاکہ اسے بھی یوکرین کے معاملے پر اعتماد میں لیا جائے۔

واضح رہے کہ چار ملکوں بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت اور نیپال کے درمیان ہائیڈرو پاور سےمتعلق ایک معاہدہ بھی ہے۔ جسے بی بی آئی این کہا جاتا ہے۔



وزرائے اعظم کی ملاقات سے قبل دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان مشترکہ مشاورتی کمیشن کے تحت ساتویں دور کے مذاکرات بھی ہونے ہیں۔

بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو ایشوز ہیں انہیں حل کیا جائے اور اقتصادی روابط کو بھی مزید فروغ دیا جائے۔ بھارت بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتا ہے تاہم دونوں کے درمیان ایسے کئی معاملات ہیں جو ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان جن امور کو حل ہونا ہے ان میں ایک اہم معاملہ دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کا ہے۔ یہ ایک بہت پرانا مسئلہ ہے اور تقریباً ہر بات چیت میں اس پر تبادلہٌ خیال ہوتا ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا ہے۔

بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ بھارت میں اگلے پارلیمانی انتخابات سے قبل بھارت اس مسئلے کو حل کرے۔ اس کے علاوہ مزید دو دریاؤں کوشیرا اور فینی کے پانیوں کے اشتراک کا بھی معاملہ ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان 54 مشترکہ دریا ہیں جو دونوں اطراف کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم ہے۔

اے کے عبد المومن کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تمام بڑے اور اہم مسائل حل کر لیے گئے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ چھوٹے ایشوز ہیں جنہیں ہم مذاکرات کی مدد سے حل کر لیں گے۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق جے شنکر اور شیخ حسینہ کے درمیان دفاعی تعاون، کوشیرا اور فینی دریاؤں کے درمیان آبی اشتراک، کرونا وبا اور روس یوکرین جنگ کے عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات جیسے امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔

جے شنکر نے کہا کہ بھارت توانائی کے شعبے اور خاص طور پر ہائیڈرو پاور کے شعبے میں جس سے دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ خطے کو بھی فائدہ ہوگا، باہمی تعاون کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

ان کے بقول بھارت بڑی مقدار میں توانائی پیدا کرتا اور استعمال بھی کرتا ہے۔ بی بی آئی این فریم ورک کے تحت پڑوسی ملکوں کے ساتھ کام کرنے میں اسے خوشی ہوگی۔

دونوں ملکو ں میں رابطہ کاری کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔د ونوں ملک چاہتے ہیں کہ 1965 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ سے قبل جو ریل رابطہ تھا اس کو بحال کیا جائے۔ اس کے علاوہ ڈھاکہ سے سلی گوڑی تک ریل رابطہ بحال کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان دو ٹرینیں میتری ایکسپریس اور بندھن ایکسپریس چلتی رہی ہیں جو کرونا کی وجہ سے بند ہو گئی تھیں۔ ان ٹرینوں کو شروع کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کلکتہ اور ڈھاکہ کے درمیان اور ڈھاکہ اور اگر تلہ کے درمیان بس رابطہ کووڈ-19 کی وجہ سے منقطع ہو چکا ہے اسے بھی شروع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

گوتم لاہری کے مطابق اب دونوں ملکوں کے درمیان تین ٹرینیں چلیں گی۔ یعنی پہلے سے چلنے والی بندھن اور میتری کے علاوہ ایک نئی ٹرین میتالی ایکسپریس بھی چلائی جائے گی۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جب بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ کا بھارت کا دورہ ہوگا تو اس وقت یہ ٹرینیں شروع کر دی جائیں گی۔

ایک معاملہ اقتصادی بھی ہے۔ بھارت نے پٹ سن کی اپنی پیداوار پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی نافذ کر رکھی ہے۔ بنگلہ دیش اس ڈیوٹی کو ختم کرانا چاہتا ہے۔

جے شنکر کا کہنا ہے کہ بھارت کو امید ہے کہ مختلف شعبوں بجلی، توانائی اور رابطہ کاری کے حوالے سے جلد ہی بنگلہ دیش میں نئے منصوبوں کا اعلان کیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG