بھارت میں بدھ کے روز ملک کی ایک ارب سے زائد آبادی کی درست تعداد کے تعین کیلیے مردم شماری کا آغاز ہوگیا ہے۔ آبادی کی تعداد اور علاقے کی وسعت کے اعتبار سے اسے جدید تاریخ کی سب سے بڑی مردم شماری قرار دیا جارہا ہے۔
تین ہفتے تک جاری رہنے والی اس مردم شماری میں 25 لاکھ سے زائد سرکاری کارندے ملک کے طول وعرض میں جاکر بھارتی باشندوں کی معلومات اکٹھی کریں گے۔
مردم شماری کے اس مرحلے کو سب سے پیچیدہ قرار دیا جارہا ہے جس کے دوران بھارتی باشندوں کی درست تعداد کے تعین کیلیے ایک ایک فرد کی گنتی کی جائے گی۔
حکام کے مطابق مردم شماری کرنے والے اہلکاروں کی ملک کے ہر کونے تک رسائی یقینی بنانے کی غرض سے انہیں چھ لاکھ سے زائد دیہاتوں کے سیٹلائٹ نقشے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
مردم شماری کا باقاعدہ آغاز بدھ کے روز نئی دہلی سے ہوا جہاں سرکاری اہلکاروں نے بھارت کی صدر پرتھیبا پاٹیل کی سرکاری رہائش گاہ کا دورہ کرکے ان کی ذاتی معلومات کا اندراج کیا۔
اس موقع پہ اپنے پیغام میں بھارتی صدر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ مردم شماری کرنے والے اہلکاروں سے تعاون کریں۔
رواں سال کی جانے والی مردم شماری اس لیے بھی عالمی توجہ کا مرکز ہے کہ ماضی کے برعکس اس بار بھارتی باشندوں کی درست تعداد کے علاوہ ان کی آمدنی، تعلیم اور مذہب سے متعلق معلومات بھی اکٹھی کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مردم شماری میں اس بات کا بھی پتا چلایا جائے گا کہ آیا فرد کی رہائش گاہ کچی ہے یا پکی اور کتنے فی صد عوام کو صاف پانی، بجلی اور بیت الخلاء تک رسائی حاصل ہے ۔
اس مقصد کیلیے مردم شماری کیلیے تعینات عملہ ایک ایک گھر کا دورہ کرکے اہلِ خانہ کے کوائف اکٹھے کرے گا۔ گھر گھر مہم کے اختتام پر 28 فروری کی شام سرکاری عملہ ملک بھر کے بڑے شہروں کا دورہ کرکے وہاں سڑکوں، فٹ پاتھوں اور پلوں کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی معلومات کا بھی سرکاری ریکارڈ میں اندراج کرے گا۔
مردم شماری کے دوران بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام باشندوں کی تصاویر اور فنگر پرنٹس بھی حاصل کیے جائیں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ معلومات بعد ازاں بھارتی باشندوں کو "بایو میٹرک شناختی کارڈز" کی فراہمی اور "قومی آبادی کے رجسٹر" کی تیاری میں استعمال کی جائیں گی۔
بھارت کے وسیع رقبے، کثیر آبادی اور جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی تنوع کے باعث یہاں مردم شماری کا انعقاد خاصا مشکل عمل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں ہر دس سال بعد مردم شماری کی جاتی ہے جس کا سلسلہ 1872 سے بلا تعطل جاری ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے عملے کی جانب سے گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصہ کے دوران جنگ، قحط سالی اور ہر طرح کی دیگر مشکلات کے باوجود مردم شماری کا بلا تعطل انعقاد قابلِ ستائش ہے۔
تاہم بھارتی حکام اکٹھی کی جانے والی معلومات کے تنوع کے اعتبار سے اس مردم شماری کو تاریخ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی سرگرمی قرار دے رہے ہیں۔ رواں سال ہونے والی مردم شماری کے پہلے مرحلے کے دوران حکام ملک میں بسنے والے گھرانوں کی تعداد کا تعین کرچکے ہیں اور اس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بھارت کی کل آبادی اس وقت ایک ارب 17 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مردم شماری سے حاصل ہونے والی معلومات سے جہاں ایک طرف حکومتی پالیسیوں کی از سرِ نو تدوین میں مدد ملے گی وہیں ان علاقوں اور آبادیوں کا بھی پتا چلے گا جہاں مزید حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔