بھارت نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے حل کے لیے وہ چین کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے۔ لہذٰا اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی پرامن حل نکل آئے گا۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرحدی تنازع پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر چین اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی تھی۔
بھارت نے باضابطہ طور پر صدر ٹرمپ کی پیش کش کو مسترد نہیں کیا۔ البتہ اس کا اصرار ہے کہ وہ دو طرفہ مذاکرات سے ہی یہ مسئلہ حل کر لے گا۔
بھارت کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو سے امریکی صدر کی پیش کش کے حوالے سے پوچھا گیا۔ لیکن اُنہوں نے صدر ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا کہ بھارت اس معاملے پر چین کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہا ہے۔
اس سے قبل بھی بھارت کشمیر کے تنازع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے امریکی صدر کی ثالثی کی پیش کش کو نظر انداز کر چکا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق بھارتی حکومت نے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان رابطے کے دعوے کو بھی رد کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا تھا کہ اُن کی بھارتی وزیر اعظم سے چین کے ساتھ تنازع پر بات ہوئی ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم چین کے ساتھ کشیدگی سے خوش نہیں ہیں۔
البتہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ایسی کوئی گفتگو سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
بھارت اخبار 'دی ہندو' کا سرکاری حکام کا نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعطم مودی کے درمیان کوئی رابطہ ہوا ہی نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان آخری بار رابطہ رواں سال چار اپریل کو ہوا تھا۔ جس میں کرونا وائرس کے علاج میں ‘ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن' سے متعلق گفگتو ہوئی تھی۔
خیال رہے کہ بدھ کو صدر ٹرمپ کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ وہ چین اور بھارت کے مابین ثالثی کرانا چاہتے ہیں۔
بھارت اور چین کے درمیان رواں ماہ کے آغاز سے سکم اور لداخ کے مقام پر کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔
مئی کے پہلے ہفتے میں دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان جھڑپوں میں کئی جوان زخمی ہو گئے تھے۔
بھارت اور چین کے درمیان 1962 میں سرحدی تنازع پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد 3500 کلو میٹر طویل ہے۔ لیکن بہت سے علاقوں کی سرحدی حد بندی کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔