صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے اپنے دو روزہ دورے میں وزیر اعظم مودی کے غیر معمولی استقبال اور گرمجوش میزبانی سے لطف اندوز ہوئے، امریکہ میں سرمایہ کاری کے لیے بھارت کے سرمایہ کاروں تک پہنچے اور دہلی کو تین ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے دوران قیام دہلی میں ہونے والے ہنگاموں میں ہونے والی ہلاکتوں پر بظاہر سفارتی آداب اور ملکی مفادات کے پیش نظر آواز نہیں اٹھائی۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام 'جہاں رنگ' میں بھارت سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سماجی کارکن یوگیندرا یادیو، اور نارتھ ٹیکساس یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر وقار احمد نے، جو بھارت میں نسلی تشدد پر ریسرچ کر چکے ہیں، کہا کہ دنیا کے نئے آرڈر میں لبرل ازم مر رہا ہے۔ کوئی بھی ملک انسانی حقوق سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ پروگرام میں پروفیسر رسول بخش رئیس اور سحر خان نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
یوگندر یادیو کی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت پر رائے:
یوگندر یادو کے مطابق، صدر ٹرمپ نے کشمیر پر جو بیان دیا اس سے بھارتی حکومت کو کچھ مایوسی ہوئی ہو گی۔ بھارتی حکومت کو ایسی امید تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طرف سے بار بار کشمیر پر ثالثی کی پیشکش یا ارادے کو دہرائیں گے نہیں۔ بھارت کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ ہمیں اس پر ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپس کا معاملہ ہے جو ہم خود سلجھا لیں گے۔
ان کے بقول، نریندر مودی کو امید رہی ہے کہ مسٹر ٹرمپ کے ساتھ ان کے خاص تعلقات ہیں اور امریکہ ایک خاص انداز میں بھارت کی جانب جھکاؤ ظاہر کرے گا، کم از کم کشمیر کے معاملے پر۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا باقی چیزوں میں بھارت کو وہ رعایت دیں گے؟ اس کا فیصلہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کریں گے۔
جہاں تک نئی دہلی میں ہلاکتوں کا تعلق ہے، یوگیندرا ٹرمپ کے بقول صدر ٹرمپ نے اس کا کیا اثر لیا ہے۔ ان کے بقول، اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مسٹر ٹرمپ کے ذہن کو پڑھنا آسان نہیں ہے۔ ہاں دنیا پر جو تصویر اور تاثر بھارت کا جا رہا ہے وہ اچھا نہیں ہے۔ امریکہ کا صدر ہندوستان میں ہے، ساری دنیا کی توجہ ادھر ہے۔ اور اس وقت ملک کے دارالحکومت میں ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔ جو شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے درمیان تھا۔ لیکن پھر اس میں دو کمیونیٹیز ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئیں۔ حالات ایسے بگڑے ہیں کہ لگتا ہے جیسے 1984 میں سکھوں کے خلاف دنگے ہوئے تھے، گجرات میں سال 2002 میں ہوا تھا، ویسا ہی کچھ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہو رہا ہے۔ خبریں کہتی ہیں کہ مسلمانوں کو ہدف بنا کر تشدد ہو رہا ہے، تو ظاہر ہے یہ بات بھارت کے بیرونی دنیا میں تشخص کے لیے اچھی تو نہیں ہے۔ یہ تشخص بھارت کی جمہوریت اور سیکولر ریکارڈ کو مضبوط نہیں بناتا۔
رسول بخش رئیس، پروفیسر علم سیاسیات
جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے، آج کی دنیا سے کچھ چھپا نہیں رہ سکتا۔ یوگندر نے بالکل درست کہا کہ جس طرح سکھوں اور مسلمانوں کے خلاف ماضی میں کیا گیا، آج وہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کی ریاست کہاں ہے، ریاستی ادارے، پولیس اور نیم فوجی دستے جب تشدد ختم کرنے آتے ہیں تو وہ سب مل کر دوسرے فریق کو مارنے لگ جاتے ہیں۔ لگتا ہے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کو سزا دینا چاہتی ہے۔
پروفیسر وقار احمد، نارتھ ٹیکساس یونیورسٹی
دہلی میں الیکشن کچھ دن پہلے ختم ہوئے ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہار ہوئی ہے اور عام آدمی پارٹی کو بڑی فتح ملی ہے۔ وہاں بی جے پی شکست کے باوجود ان کے ووٹوں میں وہاں کمی نہیں ہے۔ پرانی دہلی میں ہمیشہ بے جی پی اور آر ایس ایس کا بہت بڑا گڑھ رہا ہے۔ تقسیم کے وقت جن لوگوں نے پاکستان سے ہجرت کی، وہ دہلی آ کے آباد ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو آر ایس ایس کے ساتھ مل کر تشفی دی ہے۔ وہ آر ایس ایس کی فکر کے ساتھ گھل مل چکے ہیں۔ آج سوشل میڈیا پر وائرل کچھ ویڈیوز دیکھیں جس میں پولیس خاموش ہے یا بچوں کو مار رہی ہے، اس میں احمدآباد کا ماڈل نظر آتا ہے۔ مسائل سامنے آ رہا ہیں۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو چیکس اینڈ بیلنس کا خیال رکھ سکے اور مودی اور سارے وزرا سے جوابدہی کر سکے۔
ان کے بقول، صدر ٹرمپ کے ہندوستان جانے اور وہاں موجود ہونے پر یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے ٹرمپ مودی حکومت کے اقدامات کو جائز مقام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تحمل والی حکومت ہے حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ تحمل والی حکومت نہیں ہے۔ پورے بھارت میں احتجاج کے نام پر جو خفت ہو رہی ہے، اس کا طاقت سے توڑ کرنا مقصود ہے۔
سحر خان، ریسرچ فیلو، کیٹو انسٹی ٹیوٹ
صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو وہی کرنا چاہیے جو ان کی نظر میں ٹھیک ہے۔ ہندوستان ایک جمہوریت ہے اور وہاں کشیدگی ہے اور امریکہ کا اس میں مخل ہونا نہیں بنتا۔ لیکن کیا صدر ٹرمپ چین، روس یا کیوبا میں بھی اس طرح کے تششدد کی صورتحال پر خاموش رہیں گے؟ سحر خان کے بقول شاید ایسا نہ ہو۔ چین، روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں مخاصمت ہے جبکہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں یہ پہلو موجود نہیں ہے۔ تو بات انسانی حقوق سے زیادہ ملکی مفادات کی نظر آتی ہے۔ لہٰذا امریکہ بھی حقوق کے پیرائے میں قیادت کا دعوی نہیں کر سکتا۔ کیوبا پر تنقید ہوتی تھی کہ اس نے بچوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے، شہریوں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے، صدر ٹرمپ خود اپنے ملک میں ایسا کر رہے ہیں تو وہ دوسروں کو کیا کہیں گے۔
رسول بخش رئیس، پروفیسر علم سیاسیات
کشمیر کے اندرجو کچھ ہو رہا ہے۔ جو عیسائی، مسلمان یا دلت اقلیت کے خلاف ہو رہا ہے، اس سے امریکہ بے خبرنہیں ہے۔ اس کے پاس سب حقوق کی اداروں کی رپورٹیں ہیں۔ لیکن جہاں تک ٹرمپ کی دہلی کے واقعات پر خاموشی ہے اس کی ایک وجہ سفارتی آداب بھی ہو سکتے ہیں کہ جہاں آپ جاتے ہیں اس ملک کے خلاف بات نہیں کرتے۔ اگر امریکہ کی نظر بھارت کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ اور وہاں کے اقتصادی امکانات پر ہیں تو وہاں انسانی حقوق جیسی چیزیں پیچھے چلی جاتی ہیں۔
اس گفتگو کے پس منظر میں پروفیسر وقار احمد کا کہنا تھا کہ لبرل ورلڈ آرڈر ہر جگہ مر رہا ہے یا اب موجود ہی نہیں رہا، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد۔ ٹرمپ کو غالبا پوری دنیا میں سب سے بڑا استقبال بھارت میں ملا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی موجودگی میں۔ لہٰذا وہ بھارت کو تھینک یو بولنے کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔