امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن رواں ہفتے بھارت کا دورہ کر رہی ہیں۔ وہ اس دورے کے دوران میں بھارتی حکام کے ساتھ آئندہ ماہ ہونے والے امریکہ-بھارت اسٹریٹجک مذاکرات کے ایجنڈے پر تبادلہ خیال کریں گی۔
ہلری کلنٹن کے دورہ بھارت کی زیادہ تفصیلات ذرائع ابلاغ کو فراہم نہیں کی گئی ہیں لیکن بظاہر ان کے اس دورے کا بڑا مقصد آئندہ ماہ واشنگٹن میں ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کے ایجنڈے پر بھارتی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا ہے۔
نئی دہلی کے 'آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن' سے منسلک سینیئر فیلو ہریندر سیکون کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے کے ذریعے مس کلنٹن دونوں ممالک کے سرد پڑتے تعلقات میں گرم جوشی کی نئی لہر دوڑانے کی کوشش کریں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کی واضح سمت کا تعین نہ ہونے پر بھارت اور امریکہ، دونوں ممالک کو تحفظات ہیں۔میرے خیال میں اس دورے کا ایک مقصد ان تعلقات میں نئی جان ڈالنے کی کوشش بھی ہوسکتا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ دونوں ممالک تعلقات کو قائم رکھنے کے عزم سے منسلک ہیں۔
ہریندر کہتے ہیں کہ مذاکرات میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون میں اضافے کی جانب پیش رفت ہوسکتی ہے جب کہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مینو فیکچرنگ میں اضافے کے لیے معاہدات پر اتفاق بھی متوقع ہے۔
ان کا کہناہے کہ بھارتی تاجر امریکی کمپنیوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کے سرگرم حامی ہیں لیکن ٹیکنالوجی کی منتقلی یا شراکت کے مطالبے کے سبب ان کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوپارہیں۔ میرے خیال میں دونوں ممالک کو باہمی اعتماد بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔اگر دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی پر امریکہ کو تحفظات ہیں تو پلوں اور ڈیموں کی تعمیر اور صحتِ عامہ کی سہولیات سے متعلق تجربات بھارت منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ آخر امریکہ کیوں بھارت میں جدید ترین سہولیات کا حامل اسپتال تعمیر کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا؟
سیکرٹری کلنٹن کے دورے میں جن دیگر امور پر تبادلہ خیال متوقع ہے ان میں سرِ فہرست 2014ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کا معاملہ ہے۔بھارت کا موقف رہا ہے کہ امریکہ خطے میں استحکام کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی میں افغانستان کے پڑوسی ملک ایران کو بھی شامل کرے۔ لیکن امریکہ تہران حکومت کے جوہری پروگرام سے متعلق خدشات کے باعث ایران کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہے۔
گو کہ بھارت ایران پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کی حمایت نہیں کرتالیکن اس نے حالیہ چند ماہ میں ایران سے تیل کی درآمدات میں واضح کمی کی ہے۔
نئی دہلی میں واقع ادارے 'نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی' سے منسلک این بھانومرتھی امریکی وزیرِ خارجہ کے دورے کے دوران میں متوقع طور پر موضوعِ گفتگو بننے والے بعض دیگر معاملات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ان کے بقول وزیر خارجہ کلنٹن بھارتی حکام کے ساتھ اپنی بات چیت میں بھارت میں معاشی اصلاحات کے نفاذ کا معاملہ اٹھا سکتی ہیں جو تعطل کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں کام کرنے والی موبائل کمپنیوں پر حال ہی میں عائد کردہ ٹیکس کا تنازع بھی زیرِ بحث آسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکس نے ان کئی غیر ملکی کمپنیوں کو پریشان کردیا ہے جنہوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ان کی جانب سے بھارتی حکومت پر اپنا فیصلہ واپس لینے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ میرے خیال میں سیکریٹری کلنٹن اور بھارتی حکام کے مابین ہونے والے مذاکرات میں یہ معاملہ یقیناً زیرِ بحث آئے گا۔
امکان ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ حالیہ دورے کے دوران میں بنگلہ دیش سے منسلک بھارتی ریاست مغربی بنگال بھی جائیں گی جہاں ان کی ریاست کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی سے ملاقات طے ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وزیر خارجہ کلنٹن اس ملاقات کے دوران میں ممتا بینرجی کو بھارت میں امریکی کمپنیوں کی براہِ راست سرمایہ کاری کی مخالفت ترک پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گی۔
بینرجی کی جماعت کی سخت مخالفت اور حکمران اتحاد سے علیحدگی کی دھمکی کے بعد کانگریس حکومت کو گزشتہ برس براہِ راست امریکی سرمایہ کاری سے متعلق قانون سازی سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ بھارت جانے سے قبل بنگلہ دیش کا دورہ بھی کریں گی جب کہ بھارت میں ان کا قیام منگل تک ہوگا۔