|
نئی دہلی — ایران کے سپریم لیڈر اور روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھارت کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں مبینہ طور پر اقلیتوں پر مظالم ہو رہے ہیں۔ خامنہ ای کے بیان پر بھارت نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے پیر کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اگر ہم میانمار، غزہ، بھارت یا کسی دوسرے مقام پر مسلمانوں کو ہونے والی تکالیف سے بے خبر ہیں تو ہمیں خود کو مسلمان نہیں سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے اپنے بیان میں بھارت میں اقلیتوں پر مبینہ مظالم کی کوئی تفصیل پیش نہیں کی اور نہ ہی کسی واقعے کا ذکر کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی ایک دوسری پوسٹ میں لکھا کہ اسلام دشمنوں نے مسلم اُمہ کے طور پر ہماری مشترکہ شناخت کو ہمیشہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج غزہ اور فلسطینیوں کی حمایت کرنا ہمارا فرض ہے جو اس سے روگردانی کرے گا یقینی طور پر اللہ اس سے سوال کرے گا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے آیت اللہ خامنہ ای کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد ہی اس کو ناقص معلومات کی بنیاد پر دیا جانے والا بیان قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیان ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کے سلسلے میں تنقیدی ریمارکس دینے والے ملکوں کو مشورہ دیا کہ دوسرے ملکوں کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل انہیں اپنا ریکارڈ دیکھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے 13 ستمبر کو جنیوا میں بھارتی برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دوسرے ملک بھارت کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہیں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ان ملکوں کو ان کا تبصرہ سننے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
مبصرین کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر بعض ملکوں بالخصوص امریکہ اور وہاں کے مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن کی جانب سے اظہارِ تشویش کیا جاتا رہا ہے۔
بھارت ہر ایسے بیان کی مذمت اور اس کو یہ کہہ کر مسترد کرتا رہا ہے کہ یہ الزام ناقص معلومات کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں جو کہ اس کے داخلی امور میں مداخلت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کو مسترد کیا جانا فطری بات ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے اوپر اس قسم کے الزامات کو پسند نہیں کرتا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے بیانات سے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
'بھارت میں اقلیتوں کے مسائل سے انکار نہیں کیا جا سکتا'
خلیج کی سیاست اور بھارت ایران تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار پروفیسر اخلاق آہن کہتے ہیں کہ آج جب دنیا بھر کے حالات بالخصوص اسٹرٹیجک نقطۂ نظر سے کشیدہ ہیں، یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر ایران کے سپریم لیڈر نے یہ بیان کس حوالے سے دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس بیان کو عالمی صورتِ حال خاص طور پر بڑی طاقتوں کے گروپس کے تناطر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول اقلیتوں کا معاملہ جس میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں شامل ہیں، دنیا بھر میں ایک ایشو ہے۔ ان ملکوں میں بھارت بھی شامل ہے۔ یہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔
انہوں نے اس سلسلے میں امریکہ، برطانیہ اور بنگلہ دیش کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف حکومتوں کا معاملہ نہیں بلکہ معاشرے کا بھی معاملہ ہے۔ سول سوسائٹی کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے میں بھارت کی ساکھ خراب نہ ہو۔
پروفیسر اخلاق آہن نے کہا کہ اگر کسی طرح کا کوئی الزام لگایا جاتا ہے اور اس میں کچھ صداقت ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پر کارروائی کرے اور اگر الزامات بے بنیاد ہیں تو وہ انہیں مسترد بھی کر سکتی ہے۔
ان کے بقول اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت میں اقلیتوں کے مسائل ہیں جن پر بار بار آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔
پروفیسر اخلاق آہن کہتے ہیں کہ بھارت اور ایران بہت گہرا اور تاریخی رشتہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں۔ ایران پر عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھارت کے نہ صرف اس سے تعلقات ہیں بلکہ ایران بھارت کی توانائی کی بڑی ضرورت بھی پوری کرتا ہے۔ اس لیے ان کے خیال میں اس بیان کا باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا۔
'اقلیتوں کے حقوق کے معاملے پر ایران پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے'
بھار ت کے نشریاتی ادارے ’اے بی پی نیوز‘ سے وابستہ کمل کمار مشرا کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے سلسلے میں ایران پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے۔
انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران پر الزام ہے کہ اس نے سنی مسلمانوں پر جو وہاں اقلیت میں ہیں، کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ کرد، بلوچی اور عرب بھی امتیازی رویے کا شکار ہیں۔ حجاب کے قانون کی مخالفت کرنے پر خواتین کو جیل اور جرمانے کی سزائیں دی جاتی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب آیت اللہ خامنہ ای نے بھارت میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اس سے قبل مارچ 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے ہندو مسلم فساد کو انہوں نے مسلمانوں کا 'قتلِ عام' کہا تھا۔
اسی طرح 2019 میں جب مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تو خامنہ ای نے کہا تھا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر ایران کی جانب سے بھارت میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔
ایران اور بھارت کے تعلقات
بھارت اور ایران کے درمیان ثقافتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بھی ہیں۔ ایران بھارت کو خام تیل سپلائی کرنے والا بڑا ملک رہا ہے۔ تاہم اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے باہمی تجارت متاثر ہوئی ہے۔
رواں سال کے مارچ میں ایک ایرانی تجارتی اہل کار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ایران کی تجارت ایک تہائی تک گر گئی۔
ایرانی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 کے مقابلے میں 2023 میں باہمی تجارت 26 فی صد کم ہوئی جب کہ جنوری سے دسمبر 2023 کے دورانیے میں ایران کو بھارت کی برآمدات میں 35 فی صد کی تخفیف ہوئی۔
تاہم حکومتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ رواں سال مئی میں دونوں ملکوں نے چابہار بندرگاہ کے فروغ کے لیے معاہدہ کیا ہے۔
معاہدے کے مطابق بھارت چابہار بندرگاہ کے فروغ کے لیے 120 ملین (12 کروڑ) ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس نے چابہار سے متعلق بنیادی ڈھانچے کے فروغ کے منصوبوں کے لیے 250 ملین (25 کروڑ) روپے قرض کی بھی پیشکش کی ہے۔
اس معاہدے کے بعد امریکہ کی جانب سے ناراضی ظاہر کی گئی تھی اور بھارت پر پابندی کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔
بھارت کا مؤقف ہے کہ دوسرے ملکوں سے اس کے باہمی تعلقات قومی مفادات کی بنیاد پر ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر دو ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہیں تو بھارت بھی ان سے تعلقات خراب کر لے۔
فورم