بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں واضح کیا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو اس وقت تک ان کے ملک میانمار واپس نہیں بھیجا جا سکتا جب تک ضابطے کی تمام کارروائی مکمل نہ کر لی جائے۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں بینچ نے جموں میں گرفتار کیے گئے روہنگیا پناہ گزینوں سے متعلق ایک معاملے پر سماعت کر رہا تھا۔
بینچ نے کہا کہ دستور کی دفعات 14 اور 21 اُن تمام لوگوں کو جو بھارت کے شہری ہیں اور جو نہیں ہیں، ان کو بھی حقوق حاصل ہیں۔ دفعہ 14 قانون کے سامنے سب کو برابری کا اور 21 ذاتی آزادی اور تحفظ کا حق دیتی ہے۔
بینچ کی جانب سے کہا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی عدالتیں بین الاقوامی اعلامیوں اور معاہدوں سے ترغیب حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ایسا اسی وقت تک ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ ملکی قوانین سے متصادم نہ ہوں۔ درخواست گزار نے میانمار کی موجودہ صورتِ حال کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ہم کسی دوسرے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔
جموں جیل میں بند روہنگیا پناہ گزینوں میں سے 170 کو حکومت میانمار واپس بھیجنا چاہتی ہے جس کے خلاف عدالت میں درخواست داخل کی گئی تھی اور حکومت کو اس قدم سے روکنے کی اپیل کی گئی تھی۔ جموں میں 6500 روہنگیا پناہ گزین ہیں جن میں سے بہت سے جیل میں ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجے جانے کی کارروائی شروع کیے جانے کے بعد ایک روہنگیا پناہ گزین محمد سلیم اللہ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے گرفتار شدگان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ بھارت میں مقیم 40 ہزار روہنگیا پناہ گزینوں کو میانمار واپس بھیجنے سے متعلق متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔
روہنگیا پناہ گزین جموں کے علاوہ حیدرآباد، ہریانہ، راجستھان، اترپردیش اور دہلی میں واقع کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے عالمی عدالتِ انصاف کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں میانمار میں روہنگیا پناہ گزینوں کی نسل کشی کا ذکر ہے اور اگر انہیں واپس بھیجا گیا تو ان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 21 تمام لوگوں کی زندگی کے تحفظ کی گارنٹی دیتی ہے خواہ وہ ملکی شہری ہوں یا نہ ہوں اور دفعہ 32 سب کو یہ حق دیتی ہے خواہ وہ ملکی باشندے ہوں یا غیر ملکی کہ وہ زندگی گزارنے کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔
ادھر حکومت نے سپریم کورٹ کے بینچ کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ روہنگیا شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے میں تمام متعلقہ ضابطوں کی پابندی کی جائے گی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو کہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بھارت کو پناہ گزینوں کا مرکز بننے کی اجازت نہیں دے گی۔
روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے زکوٰة فاؤنڈیشن کے صدر سید ظفر محمود اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ بھارت میں ایک درجن ممالک کے پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ دربدر ہونے جانے والوں کو پناہ دینا یہاں کی روایت رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا اتنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں کہا کہ حکومت میانمار کی حکومت سے کہے گی کہ یہ تمہارے شہری ہیں تم انہیں واپس لو۔ اگر وہ تحریری طور پر انہیں واپس لینے کے لیے رضامندی ظاہر کرے جب ہی ان کو واپس بھیجا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
ان کے مطابق بھارت میں صرف کسی ایک ملک کے پناہ گزین نہیں ہیں بلکہ ایک درجن ملکوں کے پناہ گزین ہیں۔ تبت کے لوگ 50 برس سے رہ رہے ہیں۔ نیپال سے بالکل کھلی ہوئی سرحد ہے جو چاہے آئے جائے۔ سری لنکا اور افغانستان کے پناہ گزین ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مذکورہ ممالک کے پناہ گزین قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں تو روہنگیا پناہ گزین کیسے خطرہ ہو گئے۔ ہاں ان پناہ گزینوں میں سے اگر کوئی ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے کہ کسی ملک کے پناہ گزینوں کو ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائے اور کسی دوسرے ملک کے پناہ گزینوں کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر ان کو نکالنے کی کوشش کرے۔ اقوامِ متحدہ کا ڈکلریشن بھی مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔
حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے تشار مہتہ نے کہا کہ بھارت میانمار کی حکومت سے رابطے میں ہے اور جب وہ ان کو واپس لینے کے لیے تیار ہوگی تو بھارت ان کو میانمار بھیج دے گا۔