دوعشرے قبل بھارت نے اپنی سخت اقتصادی پالیسیاں ترک کرتے ہوئے معاشی شعبے میں آزادی متعارف کرائی تھی جس کے نتیجے میں آج اس ملک کا شمار تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں کیا جارہاہے ۔ تاہم ماہرین کا کہناہے کہ جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے اس ملک کو خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کے لیے امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی خلیج کو پاٹنے کے اقدامات کرنے ہیں۔
راجیو نندا سافٹ ویئرکے ماہر ہیں اور وہ ان ابتدائی بھارتی کمپیوٹر ماہرین میں شامل ہیں جنہوں نے 1980 ء کے عشرے میں اس شعبے میں مناسب ملازمتیں نہ ہونے کے باعث امریکہ کا رخ کیا تھا۔ لیکن پھر 2001ء میں وہ اس وقت اپنے وطن واپس لوٹ لائے جب حکومت نے سوشیلسٹ طرز کی معیشت ترک کرتے ہوئے اپنے دروازنے دنیا کے لیے کھول دیے۔ راجیو نے بنگلور میں اس کمپنی کا ایک دفتر قائم کیا جس کے لیے وہ امریکہ میں کام کررہےتھے۔
راجیو نندا کہتے ہیں کہ صرف بارہ سال کے عرصے میں ان کے ملک میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں۔
1991ء میں جب من موہن سنگھ ملک کے وزیر خزانہ تھے،بھارت کو ایک انتہائی مشکل صورت حال کا سامنا تھا اور وہ اپنے بین الاقوامی قرضوں کی نادہندگی کے قریب پہنچ چکاتھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انہوں نے معاشی اصلاحات متعارف کرائیں اور ملک کے دروازے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیے۔ سرمایہ کاروں کو بہت سی ترغیبات او رٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔
اعتدال پسند معاشی پالیسی کے اثرات جلد ہی سامنے آنا شروع ہوگئے اور بھارت، چین کے بعد دنیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا دوسرا بڑاملک بن گیا۔ بھارت میں سب سے زیادہ ترقی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئی اور اس کے بعد دوسرا نمبرخدمات کے شعبے ہے۔ ملک میں صعنتوں کو تیزی سے فروغ ملا ۔ برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور ایک بہت بڑا درمیانہ طبقہ وجود میں آگیا۔جس کی وجہ سے بھارتی منڈیوں نے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرلی۔
لیکن 20 سال سے جاری ترقی کے اس سفر کے بعد تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ملک میں صنعتی انقلاب سے صرف جزوی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ کئی ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارتی ترقی کا انجن بھاپ کے بغیر چل رہاہے ۔ اور وہ اس کی وجہ قرار دیتے ہیں 40 فی صد کی اس آبادی کو جو خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں غریبوں کی تعداد 45 کروڑ سے زیادہ ہے۔ وہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور ان کی روزانہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔
تاہم بھارتی عہدے داروں کو یقین ہے کہ وہ اس اہم مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔مرکزی وزیر چدم برم جو وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ امیری اور غریبی کےاس فرق کی بنیادی وجہ روزگارکے مواقعوں کا تیزی سے پیدا نہ ہوناہے۔ مگر چونکہ اب معاشی ترقی کی رفتار آٹھ او رنو فی صد کے درمیان ہے ، اس لیے نئے روزگار پیدا ہونے سے یہ فرق کم کرنے میں مدد ملے گی۔
راجیو نندا کہتے ہیں کہ ملک میں 20 کے مقابلے میں آج کا منظر خاصا مختلف ہے اور اب مختلف شعبوں کے ماہرین مغربی ممالک میں جانے کی بجائے بھارت میں ہی کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہناہے کہ بھارتی پالیسی سازوں کے لیے آئندہ برسوں میں مسئلہ معاشی ترقی کی بجائےمتوسط طبقے اور غربت کے درمیان حائل خلیج پاٹنا ہوگا۔