کیا حسنی مبارک دنیاکے امیرترین شخصیت ہیں؟ یہ سوال دنیا بھر کے مختلف حلقوں میں گفتگو کا موضوع بنا ہواہے۔
فوربزمیگزین میں پچھلے سال مارچ میں دنیا کے جن ارب پتی افراد کی فہرست شائع کی تھی ، اس میں حسنی مبارک کا نام شامل نہیں تھا۔ فوربز کے مطابق دنیا کی امیرترین شخصت میکسیکو کے کارلوس ہیں جن کی دولت کا تخمینہ ساڑھے 53 ارب ڈالر ہے ، جب کہ مائیکروسافٹ کے بل گیٹس 53 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔
اس فہرست میں چوتھے اور پانچویں نمبر پر بھارتی شخصیات تھیں ، ایک ایسے ملک کے ارب پتی ، جہاں غریبوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
حسنی مبارک کی دولت کا انداہ 70 ارب ڈالر تک لگایا جارہاہے، جو دنیا کے امیر ترین شخص کارلوس سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ افریقہ ڈاٹ کام نے دعویٰ کیا ہے کہ حسنی مبارک دنیا کے امیر ترین انسان ہیں۔
برطانوی اخبار گارجین نے اپنی بدھ کی اشاعت میں لکھاہے کہ 82 سالہ حسنی مبار ک کے 70 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ اور کئی دوسرے ممالک کی تجوریوں میں محفوظ پڑے ہیں۔ نیویارک ، لندن اور کیلی فورنیا کے شہر بیورلی ہلز میں ان کی بیش قیمت جائیدادیں بھی ہیں۔
اخبار کا کہناہے کہ انہوں نے یہ دولت اپنے 30 سالہ دوراقتدار میں مصری خزانے سے لوٹی ہے۔
الجزیرہ ٹیلی ویژن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ زیادہ تر مصری باشندوں کا خیال ہے کہ ملک کی قومی دولت سے صرف حسنی مبارک اور ان کے خاندان کو فائدہ پہنچاہے اور کچھ ثمرات ان کاروباری افراد نے سمیٹے ہیں جو حسنی مبارک کے قریب تھے۔
مصر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی دو ڈالر روزانہ سے کم ہے اور وہ غربت و افلاس کی زندگی گذار رہے ہیں۔ملک میں بے روزگاری کی سطح بہت بلند ہے۔ لوگ غربت کی وجہ ملکی دولت کی لوٹ گھسوٹ ، اور رشوت خوری کو قرار دیتے ہیں۔
قاہرہ کی سڑکوں پر صدر حسنی مبارک کی اقتدار سے برطرفی کے لیے جاری بڑے بڑے مظاہروں میں حکومت پر لگائے جانے والے الزامات میں کرپشن بھی شامل ہے۔
الجزیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق مصری صدر اور ان کے خاندان کے پاس نقد دولت کا تخمینہ 40 سے 70 ارب ڈالر تک ہے۔ جس سے ایک ایسی ریاست کی تصویر ابھرتی ہے جہاں قومی دولت کو سیاسی قوت کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔
پریس ٹی وی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ حسنی مبارک کی زیادہ تردولت سوئٹرزلینڈ اور برطانیہ کے بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس میں چھپائی گئی ہے۔
ایک عربی اخبار الخبر کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ صدر مبارک کے بیٹے کمال اور علاء ارب پتی ہیں اوروسطی لندن کے انتہائی مہنگے علاقے میں قیمتی جائیدادوں کے مالک ہیں۔اخبار نے اپنے مضمون میں کئی ایسی مغربی کمپنیوں کے نام شامل کیے ہیں جن میں صدر مبارک کے خاندان کی شراکت داری ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق کمپنیاں انہیں سالانہ 15 کروڑ ڈالر ادا کرتی ہیں۔
اخبار گارجین نے مشرق وسطیٰ امور کے پروفیسر کرسٹوفر ڈیوڈسن کے حوالے سے کہاہے کہ عرب کی خلیجی ریاستوں میں کسی غیر ملکی کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی باشندوں کا 51 فی صد حصہ رکھنا پڑتا ہے، جب کہ مصر میں غیر ملکی 20 فی صد مقامی شیئرز کے ساتھ کاروبار کا آغاز کرسکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر میں زمینی حقائق اس قانون سے بہت مختلف ہیں۔ کاروباری افراد کو ، چاہے وہ غیر ملکی ہوں یا مقامی ، اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ حکمران جماعت اور اعلیٰ فوجی عہدے داروں کو رشوت میں دینا پڑتا ہے۔
پروفیسر ڈیوڈ سن کہتے ہیں کہ ہر بڑے پراجیکٹ کے لیے صرف ایک مقامی سپانسر کی ہی نہیں بلکہ صدر مبارک کی نظر عنایت بھی درکار ہوتی ہے جو خفیہ کھاتوں میں نذرانہ دیے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
پیر کے روز 20 ممتاز مصری شخصیات کے ایک گروپ نے پبلک پراسیکیوٹر کو ایک درخواست دی کہ وہ حکمران خاندان کی دولت کے بارے میں زبان زدعام کہانیوں کی تحقیقات کرے اور یہ جائزہ لے کہ اپنے 30 سالہ دوراقتدار میں مبارک کا خاندان کس طرح اربوں ڈالر اکھٹے کرنے میں کامیاب ہوا۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں یہ سوال اٹھایا کہ ایک ایسا حکمران، جو قانون کی پاس داری نہیں کرتا، جس نے دکھاوے کی جمہوریت قائم کررکھی ہے اور جو بڑے پیمانے پر لوٹ گھسوٹ کررہاہے، کس طرح امریکی معیار پر پورا اترتا ہے اور کس طرح وہ امریکی حمایت اور سالانہ اربوں ڈالر کی امداد کا مستحق ہے۔
سوئٹزر لینڈ اور مغربی ممالک کے مخصوص بینکوں میں صرف صدر حسنی مبارک کے ہی خفیہ کھاتے نہیں ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ کئی غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے حکمرانوں اور اعلیٰ عہدے داروں کی بھی بڑی بڑی رقوم موجودہیں۔ جنہیں استعمال میں لاکر ان ملکوں کی غریبی دور کی جاسکتی ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ وہ دولت جو اپنی جائز ضرورتوں سے زیادہو، اس کے اصل حق دار محروم طبقات ہیں۔ اور اس دولت کو خوشیاں باٹنے کے لیے اسی طرح استعمال کرنا چاہیے جیسے بل گیٹس اور بہت سے دوسری امیر شخصیات فلاحی تنظیموں کے ذریعے کررہی ہیں۔