رسائی کے لنکس

بھارت: کسانوں سے احتجاج ختم کرنے کی وزیر اعظم مودی کی اپیل


بھارت میں کسانوں کا احتجاج جاری، دہلی کی سڑکیں بلاک۔
بھارت میں کسانوں کا احتجاج جاری، دہلی کی سڑکیں بلاک۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا سے خطاب کرتے ہوئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا احتجاج ختم کردیں۔

انھوں نے کسانوں کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کسانوں کی اجناس کے لیے مقرر کردہ کم سے کم سپورٹ پرائس یا منیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کا نظام پہلے بھی تھا، آج بھی ہے اور آگے بھی رہے گا۔

انھوں نے صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے کسانوں سے اپیل کی کہ بات چیت کی مدد سے مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے آئیں۔

انھوں نے کہا کہ کسان احتجاج کر رہے ہیں یہ ان کا حق ہے۔ لیکن وہاں بزرگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ احتجاج ختم کیجیے۔ بزرگوں اور دوسروں کو واپس لے جائیے۔ ہم مل کر بات چیت کریں گے۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں۔ میں آج ایوان کے توسط سے دعوت دیتا ہوں کہ آئیے اور بات کیجیے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کسانوں سے مسلسل بات کر رہے ہیں۔ ابھی تک کہیں کوئی تناو پیدا نہیں ہوا ہے۔ ہمیں بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے زرعی اصلاحات کا دفاع کیا اور کسانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہماری زراعت کو اچھا بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ فیصلہ کرنے کا یہی وقت ہے۔ ہمیں زرعی اصلاحات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

انھوں نے کسانوں سے کہا کہ وہ ایک بار ان قوانین کو نافذ کرنے کا وقت دیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ زرعی قوانین میں ترمیم ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر ان میں کوئی خامی ہے تو ہم انھیں دور کریں گے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ خرید منڈیوں کو اور جدید بنایا جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کبھی نہ کبھی ایسا وقت آتا ہے کہ پرانے قانون میں ترمیم کرنی پڑتی ہے۔ قوانین کو بہتر بنانے کے لیے اچھی تجاویز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں بہتر اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، فائل فوٹو
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، فائل فوٹو

نریندر مودی نے قوانین کی مخالفت کرنے پر حزب اختلاف پر نکتہ چینی کی اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بھی زرعی قوانین میں اصلاحات کی بات کی تھی۔ مگر آج کانگریس کے لوگوں نے یو ٹرن لے لیا ہے۔

انھوں نے اپوزیشن سے کہا کہ ان کے الفاظ میں، وہ زرعی قوانین کے سلسلے میں غلط اطلاعات نہ پھیلائیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ایوان میں اس مسئلے پر کافی بحث ہوئی ہے۔ لیکن سب نے صرف احتجاج کے بارے میں گفتگو کی۔ کسی نے کوئی حل نہیں سجھایا۔

انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ یہاں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک ترقی کر رہا ہے اور ایف ڈی آئی (براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری) پر گفتگو ہوتی ہے۔ لیکن آج ایک نیا ایف ڈی آئی سامنے آ گیا ہے۔

انھوں نے اسے ”فارن ڈسٹرکٹیو آئیڈیالوجی“ قرار دیا اور کہا کہ ملک کو اس سے بچانے کی ضرورت ہے۔

ان کے ا س بیان کو کسانوں کے احتجاج کو غیر ملکی شخصیات کی جانب سے حمایت دینے کے بیانات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

دہلی پولیس نے ماحولیات کی کارکن گریٹا تھنبرگ کی جانب سے ٹول کٹ ٹوئٹ کرنے اور پھر اسے ڈلیٹ کرنے کے بعد ایک کیس درج کیا ہے۔ تاہم اس میں گریٹا کا نام نہیں ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کسان تحریک کی آڑ میں خالصتان تحریک کو زندہ کرنے کی ایک بین الاقوامی سازش تیار کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کی مسئلے کا جائز حل نکالنے کی اپیل

دریں اثنا اقوام متحدہ نے مظاہرین اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ احتجاج کے دوران زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔

عالمی ادارے کے انسانی حقوق کےدفتر نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پرامن اجتماع اور رائے کے اظہار کے حقوق کی حقیقی زندگی اور آن لائن دونوں سطحوں پر اجازت ہونی چاہیے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس مسئلے کا ایک جائز حل تلاش کیا جائے جو تمام لوگوں کے انسانی حقوق کا احترام کرے۔


کسانوں نے وزیر اعظم کی اپیل کو مسترد کر دیا

آل انڈیا کسان مزدور سبھا کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر آشیش متل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر حکومت تینوں متنازعہ قوانین واپس لے لے اور ایم ایس پی کو قانونی درجہ دے دے تو احتجاج ختم ہو جائے گا اور کسان واپس چلے جائیں گے۔

انھوں نے وزیر اعظم پر غلط بیانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ کسانوں نے یہ نہیں بتایا کہ قوانین میں کیا غلط ہے۔ جب کہ حکومت کو خطوط بھیجے گئے ہیں اور گیارہ دور کی بات چیت ہو چکی ہے۔ ہر بات چیت میں بتایا گیا کہ قوانین میں کیا خامیاں ہیں۔

غازی پور بارڈر پر دھرنے پر بیٹھے بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ چونکہ ایم ایس پی کے سلسلے میں کوئی قانون نہیں ہے اس لیے تاجر کم سے کم قیمت پر اجناس خرید لیتے ہیں جس سے کسانوں کو نقصان ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مذکورہ قوانین کے نفاذ کے بعد کمپنیاں اجناس کی قیمت طے کریں گی۔ ان کے مطابق ملک میں بھوک کا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یعنی بھوک کے حساب سے اجناس کی قیمت طے کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ان کے مطابق جس طرح پروازوں کی ٹکٹ کے نرخ میں دن میں کئی بار اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، ہم اجناس کی قیمتوں میں اس طرح اتار چڑھاؤ کی اجازت نہیں دیں گے۔

جب ان سے کہا گیا کہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین چھوٹے کسانوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں تو انھوں نے کہا کہ پہلے کسان تحریک کو برادری کے نام پر باٹنے کی کوشش کی گئی اور اب چھوٹے اور بڑے کسانوں کے نام پر باٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

متحدہ کسان مورچہ کے رکن ابھیمنیو کوہر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے تو سینکڑوں بار کہا ہے کہ ایم ایس پی نظام باقی رہے گا۔ اگر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ باقی رہے گا تو پھر اسے قانونی درجہ کیوں نہیں دے دیتی۔

ان کا کہنا ہے کہ کسان تنظیمیں بھی حکومت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بات چیت کی پیشکش تھرو پراپر چینل ہونی چاہیے۔

دیگر رہنماؤں نے بھی ایم ایس پی کو قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک قوانین واپس نہیں ہوں گے اور ایم ایس پی کے سلسلے میں قانون نہیں بنایا جائے گا ان کا احتجاج جاری رہے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG