بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے سماجی کارکن اَنّا ہزارے اگرچہ ابھی جیل کے اندر ہی ہیں، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اُن کے آگے جھک گئی ہے۔
اُنھیں منگل کی رات جیل سے رہا کردیا گیا تھا لیکن وہ اپنی شرطوں پر جیل سے باہر آنے پر بضد رہے اور دہلی پولیس کو اُن کی شرطیں ماننی پڑی ہیں۔
اب اُنھیں رام لیلہ میدان میں بھوک ہڑتال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، جہاں لوگ اِکٹھا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
پولیس نے سات دِنوں تک ہڑتال کی اجازت دی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ یومیہ جائزے کی بنیاد پر اِس مدت میں ایک ایک دِن کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن، اَنّا ہزارے ایک ماہ کی بھوک ہڑتال پر جانا چاہتے ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ، پولیس سے تحریری اقرار نامہ بھی چاہتے ہیں۔پہلے پولیس نے اُن سےتحریری اقرار نامہ حاصل کیا تھا۔
اَنّا ہزارے کی حمایت میں دہلی اور ملک کے دیگر شہروں میں اب بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
دہلی میں تہاڑ جیل کے باہر انڈیا گیٹ اور اسٹیڈیم میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔ پارلیمنٹ میں اِس معاملے پر بحث ہو رہی ہے اور حزبِ اختلاف کے ارکان اور حکومت پر بظاہر بھاری پڑ رہے ہیں۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اَنّا ہزارے کے خلاف پولیس کارروائی پر پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اَنّا ہزارے اپنا لوک پال بِل حکومت پر تھوپنا چاہتے ہیں جب کہ قانون بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے۔
حزبِ اختلاف کی قائد سشما سوراج نے اُن کے بیان کے جواب میں کہا کہ آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ حکومت جمہوری حقوق پامال کررہی ہے، لہٰذا، وہ وزیرِ اعظم کا بیان مسترد کرتی ہیں۔