بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے تقریباً 40 لاکھ افراد کو قانونی مشکل درپیش ہے، چونکہ اُن کے نام بھارتی شہریت کے اندراج کی متنازع فہرست سے خارج کردیے گئے ہیں۔ جب تک سوالیہ نشان بننے والے یہ شہری اپنی شہریت ثابت نہیں کرپاتے، اُنھیں بغیر شہری ہونے اور بالآخر ملک بدری کا خدشہ لاحق رہے گا۔
حکومت نے پیر کے روز یہ فہرست جاری کی، جسے شہریت کے قومی اندراج (این آر سی) کا نام دیا جاتا ہے۔ ڈیٹابیس میں اُن افراد کے نام شامل ہیں جو یہ ثابت کر پائیں گے کہ وہ آسام میں رہ چکے ہیں یا وہ ہمسایہ بنگلہ دیش کی جانب سے مارچ 1971ء کے اواخر میں اعلانِ آزادی سے پہلے اس ریاست میں آباد تھے۔
اُس وقت مسلمان اکثریتی آبادی والا بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ اُسی سال جب پاکستان نے فوجی کارروائی کا آغاز کیا، لاکھوں ہندو اور مسلمان آسام میں داخل ہوئے، جہاں اُنھوں نے پناہ لے لی۔
روزگار کی تلاش میں، ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ہندو اور مسلمان اُس خطے کے مکین تھے جو اب بنگلہ دیش ہے، اور وہاں سے آسام آ کر بسے۔ تاہم، مارچ 1971ء کے بعد آسام میں بسنے والے بنگالی زبان بولنے والے لوگوں کو بھارت نے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا ہے۔
بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے پیر کے روز پارلیمان کو بتایا کہ اندراج کے تازہ ترین مسودے کی بنیاد پر کسی شخص کے ساتھ وطن بدری کا سنگین معاملہ نہیں برتا جائے گا۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو درکار وقت دیا جائے گا، تاکہ وہ اپنا نام ڈیٹابیس میں شامل کرا سکیں، جس کے لیے ہندو اکثریت والے بھارت کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت ہوجاتی ہے۔
اُنھیں ملک بدر کرنا وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کےایجنڈے کا ایک کلیدی حصہ ہے، جس نے 2014میں انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد وفاقی حکومت تشکیل دی تھی۔ سنہ 2015میں جب حکومت نے شہریت کی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کے عمل کا آغاز کیا، آسام میں تقریباً تین کروڑ 30 لاکھ افراد نے اپنے نام کا اندراج کرایا۔ مودی کی ہندو قومی پرست جماعت 2016ء میں پہلی بار آسام میں انتخابات جیتے، اس وعدے پر کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔
پیر کے روز جب ’این آر سی‘ نے فہرست کا مسودہ شائع کیا، متعدد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں نے دعویٰ کیا کہ اُن کا نام فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔