ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے نئی دہلی میں اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے ملاقات کی ہے اور امریکہ کی جانب سے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد ایرانی تیل کی بھارت کے لیے برآمد کے مسئلے پر بات چیت کی۔
جواد ظریف بھارت کے دو روزہ دورے پر پیر کی رات نئی دہلی پہنچے تھے۔ انہوں نے منگل کے روز سشما سوراج سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور اور خطے کی صورت حال پر بات چیت کی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال سمیت باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔
سشما سوراج نے ایران سے تیل کی درآمد کے سلسلے میں اس موقف کا اعادہ کیا کہ انتخابات کے بعد ملک کی تجارتی ضرورتوں، توانائی سیکورٹی اور اقتصادی مفادات کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد ایرانی تیل کی درآمد کے سلسلے میں بھارت سمیت آٹھ ملکوں کو چھوٹ دے رکھی تھی جس کی مدت 2 مئی کو ختم ہو گئی۔ اس کے بعد بھارت نے ایران سے تیل کی درآمد روک دی ہے۔
سینئر صحافی اور خارجہ امور کے ماہر مفیض جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران سے تیل کی درآمد روکنے سے بھارت کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے پہنچنے والے نقصان کو بھارت زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر پائے گا۔ اس سے دونوں ملکوں کے روایتی رشتوں پر بھی اثر پڑے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اس بارے میں امریکہ کے سامنے کوئی سخت موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
البتہ، اگر حکومت بدلتی ہے تو وہ ملک کی سابقہ خارجہ پالیسی پر کوئی اہم فیصلہ کر سکتی ہے۔
مفیض جیلانی کے مطابق، بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ خارجہ پالیسی کو بدستور قائم رکھے اور اس بارے میں امریکہ کے سامنے اپنا موقف پر زور انداز میں رکھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ مل کر امریکہ پر واضح کرے کہ ایران پر پابندیوں سے صرف بھارت اور ایران کو ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
جواد ظریف نے سشما سوراج سے ملاقات کو شاندار قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ہمارے پڑوس میں رہنے والوں کے حقیقی قومی مفادات امن و استحکام، باہمی تعاون اور روابط میں اضافے سے وابستہ ہیں۔
جواد ظریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خلیج میں موجودہ کشیدگی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا اور کہا کہ ہم کشیدگی نہیں اپنا دفاع چاہتے ہیں۔
وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا، تاکہ وہ علاقے کی موجودہ صورت حال سے بھارت کو آگاہ کر سکیں۔
اس سے قبل جواد ظریف روس، چین، ترکمانستان اور عراق کے دورے کر چکے ہیں۔ یہ دورے ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب خلیج کے علاقے میں صورت حال بہت کشیدہ ہے۔