|
ویب ڈیسک — بھارت میں اکثر علاقوں میں رواں سال موسمِ گرما میں شدید درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ کئی علاقوں میں تو پارا 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا جب کہ ایک دہائی کے دوران بھارت میں شدید ترین ہیٹ ویو دیکھی گئی جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک اور بیمار ہوئے۔
صحت عامہ کے ماہرین کے مطابق سرکاری رپورٹس میں درج کردہ اموات حقیقی اموات کی تعداد کی درست عکاسی نہیں کرتیں جس کی وجہ سے مستقبل کے لیے کیے جانے والے اقدامات متاثر ہو سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں مون سون بارشوں کے سبب موسم میں بہتری آئی ہے۔ تاہم کئی ماہ تک ملک کے کئی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں رہے۔
شمالی بھارت میں درجۂ حرارت زیادہ ہونے کے سبب اموات بھی ہوئی ہیں جہاں سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 110 افراد گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
صحت عامہ کے ماہرین کے مطابق شدید گرمی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں ہو سکتی ہے۔
ان کے بقول ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں موت کی وجہ چوں کہ شدید گرمی نہیں لکھی جاتی اسی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی کم تعداد رپورٹ کیے جانے کے سبب ان اموات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو دی جانی چاہیے۔
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس وجہ سے حکام اپنے شہریوں کو شدید درجۂ حرارت سے نمٹنے کے لیے تیار بھی نہیں کر پاتے۔
بھارت میں گرم ترین سال پچھلی دہائی میں ریکارڈ کیے گئے۔
صحت عامہ کے ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق 2008 سے 2019 کے درمیان ہر سال ایک ہزار 116 افراد شدید گرمی کے سبب ہلاک ہوئے۔
صحت عامہ کے حوالے سے امور کی انجام دہی کے ایک حصے کے طور پر ’پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا‘ کے بانی سری ناتھ ریڈی نے ریاستی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ اموات کو ریکارڈ کرتے وقت گرمی کا عنصر کیسے شامل کیا جائے۔
انہوں نے قرار دیا کہ نامکمل رپورٹنگ، تاخیر سے رپورٹ کیا جانا یا اموات کی غلط درجہ بندی کی وجہ سے بھارت میں گرمی سے اموات نمایاں طور پر کم ظاہر ہو رہی ہیں۔
’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ‘ گاندھی نگر کے سابق سربراہ دلیپ ماولنکر کہتے ہیں کہ گرمی کی لہر دوسرے طبقے کے لوگوں کے لیے آخری وار ہے۔ گرمی کی لہر سے مرنے والے زیادہ تر لوگ اسی زمرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی اموات کو گرمی سے منسلک نہیں کیا جاتا ہے۔
دلیپ ماولنکر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس سال گرمی سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ظاہر کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیٹ اسٹروک کے لگ بھگ 40 ہزار کیس سامنے آئے۔ لیکن گرمی سے اموات صرف 110 درج ہوئی ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ رواں برس گرمی سے اموات کی تعداد ہیٹ اسٹروک کیسوں کی کل تعداد کا صرف 0.3 فی صد ہے۔ لیکن عام طور پر گرمی سے ہونے والی اموات ہیٹ اسٹروک کے 20 سے 30 فی صد تک ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ گرمی سے ہلاکتوں کی بہتر گنتی کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول "یہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم جان سکیں گے کہ شدید گرمی کے نتائج کتنے سنگین ہیں۔"
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔